بنگلہ دیش،،لمحہ فکریہ

ابھی چند دن قبل ہی میرا ایک کالم “طاغوتی سازشوں کو سمجھنا ہوگا” کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ میں نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ جب جب کسی مسلم ملک میں اقتصادی یا فلاحی خوشحالی کا دور دورہ شروع ہونے لگتا ہے یا کچھ ممالک ایک دوسرے کے قریب آنے لگتے ہیں، طاغوتی طاقتیں حرکت میں آ جاتی ہیں اور ان ممالک میں ایک ایسا خلفشار برپا کر دیتی ہیں کہ وہ ممالک کئی دھائیوں پیچھے کی جانب لوٹ جاتے ہیں۔ جب سے فلسطین پر اسرائیل نے حملہ کیا تھا اس کے بعد سے اب تک اسرائیلی جارحیت تھمنے کا نام ہی نہیں لے کر دے رہی ہے لیکن آس پاس کے درجنوں مسلم ممالک اپنے منہ میں تالا لگائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس دوران صرف ایک ایران ہی ایسا ملک سامنے آیا تھا جس نے آواز اٹھانے کی سطح سے لیکر کسی حد تک عسکری قوت کے ساتھ بھی فلسطین کی حمایت کی تھی۔ جب جناب اسماعیل ہنیہ ایران کی دعوت پر ایران گئے ہوئے تھے تو طاغوتی طاقت نے وہاں ڈرون حملہ کرکے اسماعیل ہنیہ کو شہید کرکے دہرا فائدہ اٹھایا۔ ایک جانب مجاہدین کے سالار کو اپنے راستے سے ہٹا دیا اور دوئم یہ کہ فلسطین اور ایران کی قربت کو بھی دوریوں میں تبدیل کردیا۔ میں نے اسی کالم میں یہ بھی لکھا تھا کہ طاغوتی طاقتوں نے طے کر کے رکھا ہوا ہے کہ وہ کسی بھی مسلمان ملک کو سوچنے سمجھنے کے قابل کبھی بھی نہیں چھوڑیں گے اور تمام ممالک میں کوئی نہ کوئی خلفشار برپا کر کے رکھیں گے اسی لئے خواہ پاکستان ہو، ایران ہو، عرب ممالک ہوں، افغانستان ہو، کشمیر ہو یا فلسطین، کسی جگہ بھی ان کو یہ بات گوارہ نہیں کہ کوئی بھی مسلمان ملک اور اس کے عوام چین، اطمینان اور سکون کی زندگی گزار سکیں اور اپنے آپ کو مضبوط بنانے کے بعد ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں۔

بنگلہ دیش ایشیا کا تیزی کے ساتھ ترقی کرتا ہوا ملک بن رہا تھا۔ پاکستان سے علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش نے بلا شبہ اپنے قدم خوب جما لئے تھے اور اقتصادی اور معاشی لحاظ سے وہ دیگر مسلمان ممالک سے کافی آگے نکلتا جا رہا تھا۔ شاید یہ بات ان طاقتوں کیلئے تشویشناک تھی جو کسی بھی حال میں مسلمانوں کو خوش اور مطمئن دیکھنا گوارہ نہیں کرتے۔ دس بارہ مہینوں قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اچانک بنگلہ دیش کے حالات اس حد تک دگر گوں ہو جائیں گے کہ وہاں انقلاب کی باتیں اس تیزی کے ساتھ سر اٹھانے لگیں گی کہ ایک ایسی حکومت جو تیس برس سے قائم ہے عوامی سیلاب میں تنکے کی مانند بہہ جائے گی۔ مجھے بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات کے بارے میں کما حقہ آگاہی نہیں لیکن خدشہ ہے کہ اس کھیل میں خواہ بھارت کا ہاتھ ہو یا دنیا کے طاقتور ممالک کا، یہ اندرونی سازش کم اور بیرونی سازش زیادہ دکھائی دیتی ہے اور اس کے پیچھے فلسفہ وہی ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں مسلمانوں کو چین کی زندگی بسر نہ کرنے دی جائے۔

مجھے ایوب خان کا دور اچھی طرح یاد ہے۔ اس دور میں پاکستان کو اتنا آگے لے جایا گیا تھا کہ دنیا کے تمام مسلم ممالک کے علاوہ آس پاس کا کوئی بھی ملک کسی بھی لحاظ سے پاکستان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا حتیٰ کہ کوریا ہو چین ہو یا جاپان، یہ سب پاکستان سے پیچھے تھے لیکن اس کے خلاف ایک تحریک چلی جو ایوبی دور کو خاک چٹا گئی۔ بھٹو کے دور میں تمام عرب ممالک ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے تو دنیا نے بھٹو کو بھی چلتا کیا۔ یہی انداز جنرل ضیاءالحق کا تھا جس کی کوششوں سے ایک بار پھر سارے عرب ممالک ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے نظر آنے لگے تھے۔ اس کو بھی راستے سے ہٹا دیا گیا۔ نواز دور میں بھی پاکستان ایک مرتبہ پھر سنبھلتا نظر آیا مگر اس کا اختتام بھی کوئی خوشگوار نہ تھا۔ پرویز مشرف کے دور میں تو پاکستان کے آگے جانے کی کوئی حد ہی نہیں تھی لیکن وہ بھی آنکھوں میں ایسا کھٹکا کہ آخری دم تک اپنے ہی ملک کی شکل تک نہ دیکھ سکا۔ ان سب حکمرانوں کے خلاف اسی قسم کی تحاریک چلائی جاتی رہیں اور عوام میں ان کے خلاف جذبہ جہاد کو ابھار ابھار کر قربانیاں دینے پر اکسایا گیا اور یوں ہر مضبوط حکومت کے تخت کا دھڑم تختہ ہوتا رہا۔

ایک زمانہ تھا کہ 22 خاندانوں کا بڑا تذکرہ تھا۔ یہ سب کے سب بڑے بڑے صنعتکار، بینکرز اور کارخانیدار تھے۔ عوام میں ان کے خلاف اتنی نفرت پھیلائی گئی کہ لوگ ان کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ بھٹو نے یک جنبشِ قلم ان کی ساری ملوں، صنعتوں اور بینکوں پر ایسا شب خون مارا کہ یہ بائیس کے بائیس خاندان ملک ہی کیا اکثر اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور پھر ملک زمینداروں، وڈیروں، ملکوں، چودھریوں، خانوں اور سرداروں کے ہاتھ ایسا لگا کہ اب پورے پاکستان کے سب اداروں پر ان ہی کا راج ہے لیکن اسلام کے نام پر اٹھ کر انقلاب برپا کرنے والوں کے ہاتھ آج تک کچھ نہیں آسکا۔

مشرقی پاکستان میں بھی اب تک جو بات سامنے آئی ہے وہ یہی ہے کہ وہاں بھی “تجدیدِ احیا دین” کے نام پر جیسے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑیاں چلانے کا پورا پورا منصوبہ بنا لیا گیا ہے اور مسلمانوں کا ایسا ملک جو تیزی کے ساتھ ابھرتا ہوا نظر آ رہا تھا شاید اس کو کئی دھائیوں پیچھے لوٹ جانا پڑے۔

خدا کرے کہ میرے ساے خدشات غلط ہوں لیکن پاکستان کے بعد باقی بچ جانے والے پاکستان کے تجربات کو میں اپنی یادداشت سے کیسے کھرچ سکتا ہوں۔ جس ملک میں حکومتوں کو کمزور کر دیا جاتا ہے وہاں امارت نہیں غربتیں پھوٹا کرتی ہیں۔ جو تحریکیں انقلاب برپا کرتی ہیں ان کا کام مکمل ہوجانے پر وہی طاقتیں غالب آجایا کرتی ہیں جو ان کے اکسا رہی ہوتی ہیں۔ کیا پاکستان میں ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا؟، یہ ہے وہ سوال جو پاکستان اور بنگلہ دیش میں جشن منانے والی جماعتوں کی جانب اچھال رہا ہوں اور اس امید پر کہ جواب میں تیروں اور برچھیوں کی برسات کے علاوہ میری جانب کچھ بھی نہیں آنے والا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔