جہاں پڑوسی ممالک اپنے حقوق کو منوانے کے لیے نعرہ حق بلند کرکے آزادی کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں، اقوام عالم کے مابین اپنا لوہا منوا رہے ہیں اور اپنے آپ کو ظلم اور زبردستی کے تسلط سے نجات دلوا رہے ہیں وہیں پاکستانی عوام اپنے لیے اپنی حکومت سے ہی اپنی ترقی کی خاطر معاشی مسائل کو حل کروانے تک میں ناکام ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام اصل ایشوز کو چھوڑ کر نان ایشوز اور سیاست چمکانے کی طرف زیادہ مشغول ہے۔
معزز قارئین ! زندہ قومیں کیسی ہوتی ہیں اور کیسی نظر آتی ہیں؟ زندہ قومیں بنگلہ دیشی قوم کی طرح ہوتی ہیں جو قومی استحصال پر سوگ منا کر خاموشی کی نیند سو نہیں جاتیں بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنی ریاست کے سامنے ہی ہراول دستے مانند ڈٹ کر کھڑی ہوئی نظر آتی ہیں ۔وہ نوجوان جو اپنی تمام قوت و طاقت اپنی بقا اور اپنی قوم کی سربلندی کے لئے وقف کردیتے ہیں ۔ جو اپنے ساتھ ہونے والی نہ انصافی پر خاموش رہنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
معزز قارین! زندہ قومیں ترک قوم کی جیسی ہوتی ہیں جو جمہوریت کو بچانے کے لیے فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ کر بغاوت کی کوشش کو ناکام بنا دیتی ہیں ۔۔
ایک طرف تو ان حقیقی زندہ قوموں کی مثال ہے اور دوسری جانب پاکستان کی زندہ قوم کی مثال ہے جو اپنی تمام تر توانائی سیاسی بحث و مباحثوں میں لگا کے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ جو ملک کے لئے جان دینےکی باتیں تو کرتے ہیں مگر خراب حالات میں ملک سے فرار ہونے کے لئے بےتاب ہیں ۔
نوجوان موبائل گیمز کے محاذ پربندوقیں تانیں نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں اپنے حقوق کے لیے گھر سے نہیں نکلتے۔ بس ہماری زندہ دلی ہمارے حسِ مزاح تک ہی محدود ہے
کاش کے پاکستانی قوم بھی ایسی دلیر ، نڈر اور غیور بن جاۓ جیسی پاکستانی ترانوں اور نغموں میں بیان کی جاتی ہے۔
” نہیں ہےنا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی”۔