انقلاب کی نوید 

ظلم و جبر کی کالی راتیں کتنی ہی طویل کیوں نہ ہوں ایک نہ ایک دن طلوع سحر ہو کر رہتی ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش  نے نصف صدی سے زائد مدت تک فسطائیت اور جبر و استحصال کا مقابلہ کیا۔ پاکستان کے پرچم سے محبت کی قیمت چکائی، طویل جیلیں کاٹیں، بدترین تشدد برداشت کیا، جبری گمشدگیاں حتیٰ کہ  سر اٹھا کر پھانسی کے پھندے پر جھول گئےاور شہادت کے جام  پیئے۔ لیکن آمریت کے سامنے سر نگوں نہ کیا۔

یہ کیسی فکری آبیاری سے نشونما پا کر اُبھرنے والے سرو قامت مجاہد حر ہیں، جن کی جوانیاں جیل کی سخت صعوبتیں برداشت کرتے کرتے ضعف وبیماری کا شکار ہوکر بھی جزبہ ایمانی تروتازہ و تابندہ تر رہیں، ناقابل شکست مضبوط اعصاب اور آئینے کی طرح شفاف قلوب کی افزودگی علم و ایمان کے کس جھرنے سے کی گئی ہے۔

سیکڑوں کلمہ حق کی شھادت دینے والے مجاہدین  کی ذہنی و فکری تربیت کرنے والے مرشد اعظم ابوالاعلیٰ مودودی رحمت اللہ کے مرقدپر سدا  بہشت کی ٹھنڈی ہوائیں سایہ فگن ہوں، ان کی فکر و علم سے  منور جراغ  تاقیامت تک نور الہی کی پہچان دیتے رہیں۔

۵اگست کا دن ایشیائی خطے میں موجود تمام آمر حکمرانوں کے لیے ایک تازیانہ ہے، جنہیں اپنی مطلق العنان طاقت کے نشے کا خمار انسانیت سے عاری کر چکا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب افغانستان کے کٹھ پتلی حکمران اشرف غنی کو عوام کے عتاب کےڈر کر ایسے ہی چھپ کر بھاگنا پڑا، سری لنکا کے کرپٹ ترین حکمران خاندان بھی اسی زلت کا شکار ہوئے اور اب بنگلہ دیش پر سولہ سال سے فرعونیت سے حکمرانی کرتی شیخ حسینہ واجد کو عوام کے شدید دباؤ نے بھی ملک بدر ہونے پر مجبور کر دیا۔

شیخ حسینہ واجد نے عوام پر ظلم وجبر کے پہاڑ توڑ ڈالے،اپنی حامی جماعت کو بے حساب مراعات دے رکھی تھیں۔ نوکریوں میں غیر منصفانہ کوٹہ اور دیگر قومی پراجیکٹس میں اقرباءپروری، کمیشن اور بھاری رشوت خوری نے عوام کے جزبات پہلے ہی مجروح کر رکھے تھے۔ ایسے میں سرکاری نوکریوں میں پچپن فیصد کوٹہ کی استحصالی تقسیم نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ ملک بھر میں محنت کش طبقہ جو اپنے پیٹ کاٹ کاٹ کر بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلواتا ہے، جب انہیں امید کی آخری کرن بھی چھوٹتی نظر آئی تو انہوں نے کوٹہ سسٹم کی اس ترمیم  کو ماننے  سے انکار کر دیا۔ پر امن احتجاج کے ذریعے اپنا نکتہ نظر حکومت کے سامنے پیش کیا۔ پر طاقت ور حسینہ واجد نے کسی بات کو اہمیت نہ دی اور مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ آزمایا۔ ہزاروں افراد گرفتار  کیے مگر تین سو سے ذاید ہلاکتوں اور سیکڑوں زخمیوں کے باوجود مظاہرین ڈٹے رہے۔

پاکستان جغرافیائی اور  سیاسی حالات  بھی بنگلہ دیش سے مماثلت رکھتے ہیں۔ چند خاندانوں پر مشتعمل استعمراتی قوتوں کے آلہ کار خاندانوں کی بادشاہت، ناجائز مراعات اور من پسند قوانین کا نفاز سب عوامل مہنگائی کرپشن، کے بے قابو ہوتے جن نے عوام کا جینا مزید دشوار کر دیا ہے۔

ایسے وقت میں جماعت اسلامی مہنگائی اوربجلی کے ناقابل برداشت ذائد بلوں کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دے رہی ہے۔ حکومتی مشینری کے بے دریغ استعمال کےذریعے اس احتجاجی دھرنے کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ لیکن جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنان نے تحمل اور تدبر سے کام لیتے ہوئے حکومت کے مذموم ارادوں کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ عوام الناس کو بنگلہ دیش کی عوام سے سبق لینا چاہیے کہ کیسے سب نے متحد ہو کر آمریت کا خاتمہ کیا ہے۔ بنگلہ دیش کا بچہ بوڑھا اور جوان سب یک زبان تھے، فرقہ وارئیت اور تعصبیت کی ہلکی سی جھلک بھی دکھائی نہ دی۔

اس وقت پاکستانی عوام بھی انگنت مسائل کی چکی میں پس رہی ہے۔ اب وقت ہے کہ جماعت اسلامی کی مخلصانہ کوششوں  میں یک زبان ہو کر بھرپور ساتھ دیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے حکمران ٹولے کی تمام سیاسی پارٹیوں کو بارہا آزمایا جا چکا ہے۔ اب مزید غلط فیصلوں کی گنجائش نہیی۔ انقلاب کی نوید دستک دے رہی ہے۔ درست بصیرت سےکام لیتے ہوئے جماعت اسلامی کے ملک گیر دھرنوں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہو جائیں۔ حق کی جیت بنگلہ دیش کی تقدیر بدل سکتی ہے تو ہمیں بھی مایوسیوں سےنکل کراپنے حق کے لیۓ جماعت اسلامی کا ساتھ دینا ہوگا۔