تاریخ گواہ ہے کہ عوام کو اکٹھا کرنے کے لیے کوئی ایک نعرہ ہی کافی ہوتا ہے، مگر وہ نعرہ انسانی نفسیات کے مطابق ہو، دلوں کو چھولے اور لہو کو گرما دے۔ پاکستان بننے کا نعرہ لا الہ الا اللہ ساری قوم تن من دھن سے ایک ہو گئی جان و مال سب کچھ قربان کردیا ،اور اپنا مقصد حاصل کر لیا یعنی ازاد وطن حاصل کر لیا ۔
ستر 70 کی دہائی میں نعرہ لگا روٹی کپڑا مکان پھر قوم ایک ہو گئی دل و جان سے اس نعرے کے ساتھ ہو گئی۔ جس نعرے پہ قوم کو جمع کرنا ہوتا ہے ،متحد کرنا ہوتا ہے وہ نعرہ کا ایسا غبارہ ہے جس میں ہوا بھرنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ یہ دور تک بلندی تک اڑ سکے اگر ہوا کم ہوگی تو اس کی پہنچ اوپر تک نہیں ہوگی جلدی پھٹ جائے گا اور وہ تحریک اس نعرے کے ساتھ زمین بوس ہو جائے گی ۔
حالیہ واقعات میں حسینہ واجد کا ایک جملہ ا سے لے ڈوبا حسینہ واجد نے کہا “طالب علم دہشت گرد ہیں ہم انہیں کچل دیں گے “،اس جملے کو اس قدر پھیلایا گیا ہے اس قدر زبان زد عام کیا گیا کہ لوگ اس کے ساتھ ہی بہہ گئے ۔
حسینہ واجد کے دور حکمرانی کا یہی طریقہ تھا پکڑو، مارو اور کچل دو رحم نہ کرو جو مخالفت کرے اسے سولی پر چڑھا دو کتنے ہی لوگ اس ظلم کا شکار ہوئے ظلم تو ظلم ہے حد سے بڑھے تو مٹ جاتا ہے جو اس قوم کے اندر غصہ، لاوہ اپنے لیڈر ران کے خلاف پک رہا تھا کھل کر سامنے آگیا سب متحد ہو گئے حسینہ واجد کو استعفی دے کرملک سے فرار ہونا پڑا ۔
یہ ہے الفاظ کی طاقت اور انہیں زبان زد عام کرنے کی طاقت اور فائدہ۔