اور کتنا انتظار !۔

دین کی بنیاد پر جو ریاست قائم ہوگی وہی اصل ریاست ہوگی۔ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا ہی دین ہے۔ جماعتِ اسلامی اقامتِ دین کا جھنڈا لے کر اٹھی ہے اور یہ جھنڈا ہی اس نظریے کی علامت ہے کہ اس ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی ریاست بنا کر ہی دم لینا ہے۔

کس طرح سمندر کے پانی کو ہوائیں بادلوں کی صورت اٹھا کر چل پڑتی ہیں اور جہاں اللہ کا حکم ہوتا ہے زمین کے اُس ٹکڑے کو جل تھل کر دیتی ہیں۔ اسی طرح کراچی سے اٹھنے والی آواز پورے ملک کی آواز بن چکی ہے اور ملک کے چپے چپے میں اس کی گونج سنائی دے رہی ہے اور لوگوں کے سوئے ہوئے جذبات کو بیدار کر رہی ہے۔ اسے اپنے لیے کچھ نہیں چاہیے وہ تو اُس فرض کو پورا کرنے چلا ہے جس کا بوجھ ہر مسلمان کو اٹھانا چاہیے تھا۔ وہ اللہ کی رضا کی خاطر لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کھڑا ہوا ہے۔ وہ لوگ جو سالوں سے ملک کے حالات بدلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن اب بھی طاغوتی نظام کے خلاف اُٹھنے کو کسی صورت تیار نہیں ہیں۔ تو پھر انتظار ہی کرتے رہیں۔ اس طرح سے گھر بیٹھے اور خودکشیاں کرنے سے حالات نہیں بدلنے والے۔ خدارا اس بندے کی آواز کے ساتھ آواز ملاؤ، نڈر بنو، جو صرف ہمارے لیے ہی میدان میں اترا ہے۔

قربانیاں دینا صرف چند لوگوں ہی کی ذمہ داری نہیں ہے۔ آج اُمّتِ مسلمہ کی زبوں حالی کا سبب ہی یہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ چند لوگوں پر اقامتِ دین کی ذمہ داری ڈال کر مطمئن ہو کر بیٹھ گئی ہے۔ احتجاج کے نام پر اٹھنے سے ہی ڈرتے ہیں کہ کہیں جانی اور مالی نقصان ہی نہ اُٹھانا پڑ جائے۔ حالانکہ دیکھ رہے ہیں کس طرح اللہ کے چنے ہوئے بندے اس دین کی خاطر اپنی اور اپنے پورے پورے خاندان کی جانوں کا نظرانہ خدا کے حضور پیش کر کے سرخرو ہو رہے ہیں۔ یہ دنیا ان کے لیے بھی بنی تھی۔ لیکن انہیں اس عظیم مقصد کا علم تھا جس کے لیے انسان کو خلیفہ بنایا گیا تھا۔ وہ تو شہادت کا جام پی کر حیاتِ جاوداں پا گئے اور اُمّتِ مسلمہ کے لیے بہت سے سوال چھوڑ گئے۔

یہ احتجاج ان لوگوں کے خلاف ہے جو حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ ان سے روٹی کا آخری نوالا بھی چھین لینا چاہتے ہیں اور اس پر بس نہیں ہے۔ دوسری طرف ہماری نسلوں کو مذہبی اور روحانی طور پر تباہ و برباد کرنے کے بھی منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ قومِ لوط کی نسل کے غلیظ لوگوں کو نئی نسل پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فلموں اور ڈراموں کے ذریعے ان کے نظریات کا پرچار کیا جا رہا ہے۔ برزخ جیسی فلموں کے ذریعے ہماری نسلوں کو نفسیاتی بیماریوں کی طرف دھکیلنے کی مزموم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ جو لوگ دھرنے کو مذاق سمجھ رہے ہیں وہ اپنی اور اپنی آنے والے نسلوں کی زندگیوں کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ انہیں شاید خبر نہیں کہ عوام کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ وہ لوگ جانتے نہیں ہیں، سب جانتے ہیں اور بہت اچھی طرح سے علم رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا کے سختیاں جھیلنا نہیں چاہتے۔ چڑھائی چڑھنا اتنا آسان تو نہیں ہے لیکن ان پرخار راستوں پہ چلنا تو شروع کریں پھر دیکھیں اللہ کیسے آسان راستوں کی سہولت دے گا۔ ان شاءاللہ ۔