صبح سے موسم بہت خوشگوار تھا لیکن جب انسان تکلیف میں ہو تو موسموں کا اثر ماند پڑ جاتا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے ہماری بھی کچھ ایسی کیفیت تھی ۔چند دن پہلے گھر میں پھسل کر گرنے کی وجہ سے کافی چوٹیں آئی تھیں جو باعث آزار بنی ہوئی تھیں ۔دوپہر کے کھانے کے بعد میاں صاحب فرمانے لگے “آج گورنر ہاؤس کے سامنے فیملی دھرنا ہے ، پنڈی دھرنے میں تو نہیں جا سکا یہاں ہی جا کر اپنا حصہ ڈال دیتا ہوں،آپ تکلیف میں ہیں آرام کریں ۔دھرنے کا سن کر میری طبیعت منٹوں میں بھلی چنگی ہو گئی اٹھ کر فوراً اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی اور کہنے لگی “میں بھی چلوں گی، دھر نے میں چلنا تھوڑی ہوتا ہے گاڑی میں بیٹھ کر جانا ہے وہاں جا کر بھی بیٹھنا ہی ہے “.میں نے کچھ اس طرح سے تکلیف میں کمی کا یقین دلایا کہ انہیں میری بات ماننی پڑی ۔ساتھ چھوٹے بیٹے کو بھی لے لیا ،جلدی میں جو کچھ گھر میں موجود تھا بسکٹ، ٹافیوں کے پیکٹ، چپس اور نمکو کے پیکٹ بیگ میں رکھے کہ وہاں بچوں میں بانٹ دوں گی۔
گھر سے نکلتے وقت بارش کے کوئی آثار نہیں تھے البتہ موسم بڑا ہی سہانا ہو چلا تھا۔مغرب کی اذان سے پہلے ہی ہم گورنر ہاؤس (دھرنے کے مقام) پہنچ گئے تھے جہاں دور تک دریاں بچھی ہوئی تھیں ۔خواتین کے لیے سلیقے سے کرسیاں بھی لگی ہوئی تھیں ۔ایک طرف ٹھنڈے پانی کی ٹینکیاں بھی رکھی ہوئی نظر آئیں ۔مجھے درخت کے نیچے جگہ مل گئی تو میں کرسی پر جم کر بیٹھ گئی کہ اب یہاں سے ہلنا نہیں ہے ورنہ چوٹ میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ باجماعت مغرب کی نماز نے مکہ کی سڑکوں پر نماز کی یاد تازہ کرا دی ۔اس کے بعد دھرنے کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا،نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مختلف مقررین نے دھرنے کے مقاصد کو مدلل انداز میں شرکا کے سامنے رکھا ۔شیر پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے ایوانوں میں بیٹھے لٹیروں کو للکارتے ہوئے واضح کر دیا کہ ابھی تو ہم اپنے حقوق مانگنے کے لیے بیٹھے ہیں، مانگنے سے نہیں ملے تو چھین کے لے لیں گے۔
دھرنے میں شرکت کے بعد جب وہاں سے گھر کے لیے نکلے اور شارع فیصل پر پہنچے تو ہم پر آشکار ہوا کہ ادھر بادل خوب جم کر برسے ہیں اور جل تھل ایک ہو چکا ہے اس کے بعد تو جیسے ڈرائیونگ ایک آزمائش بن گئی ۔ہم حیرت زدہ تھے کہ اتنی دیر ہم دھرنے میں رہے بارش کی ایک بوند بھی نہ گری اور اب ہر طرف پانی ہی پانی نظر آ رہا تھا اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں وہاں سے کسی صورت رینگتے رینگتے گولی مار پہنچے تو اب ادھر بھی بارش شروع ہو چکی تھی ۔اس تمام راستے میں ہمیں کہیں بھی حکومتی مشینری نام کو بھی نظر نہیں آئی ۔نہ پانی کھینچنے کی کوئی مشین نظر آئی ،نہ ہی ان کا عملہ نکاسی آب کرتا ہوا ملا، نہ ہی ٹریفک پولیس نظر آرہی تھی سب کے سب ایسے غائب تھے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔نہ ہی وہ عوامی نمائندے جودعوی کرتے ہیں کہ بارش میں ہم خود عوام کے مشکلات حل کرنے کے لیے میدان عمل میں سرگرم رہتے ہیں۔ ان کی کارکردگی تو ہمیں گورنر ہاؤس کے داخلی راستوں پر ہی ابلتے ہوئے نالوں اور سڑک پر موجود گٹر کے پانی کی صورت نظر آگئی تھی۔ خیر دعائیں پڑھتے اور اللہ سے مدد مانگتے ہوئے آدھے گھنٹے کا سفر تقریباً تین گھنٹوں میں کر کے خیرو عافیت کے ساتھ گھر واپس پہنچ گئے ۔۔۔۔۔دل طمانیت سے بھر گیا تھا کہ اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے کی خاطر ہم نے بھی دھرنے میں اپنا حصہ ڈال دیااگر آپ بھی اب تک دھرنے کا حصہ نہیں بنے تو اپنا حصہ ڈالنے ضرور جائیں۔