مسئلہ کشمیر اورعالمی برادری

یوں تو کشمیر کی کہانی بڑی طویل اور ظلم کی داستانوں سے بھری پڑی ہے لیکن 5 اگست 2019 کا دن کشمیر کی تاریخ میں یوم سیاہ کے طور پر ہی لکھا جاۓ گا جب بھارتی پارلیمنٹ نے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو کالعدم قرار دے کر کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا ۔

اور اب ریاست دو الگ علاقوں پر مشتمل ہے جموں وکشمیر علیحدہ خطہ ہے اور لداخ علیحدہ جن پر اب دلی سرکار کا براہ راست دخل ہے۔ اس فیصلے پر کشمیری عوام میں سخت غم وغصہ دیکھنے کو ملا۔پاکستان نے بھی بھارت کے یکطرفہ فیصلے کو مسترد کرتے ہوۓ شدید تشویش کا اظہار کیا اور یہ مٶقف اختیار کیا کہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ خطہ ہے جس پر بھارت کا یکطرفہ فیصلہ قبول نہیں کیا جاسکتا۔

بھارت کے اس فیصلے پر مقبوضہ کشمیر کی عوام کا رد عمل روکنے لیے بھارتی مسلح افواج نے پوری وادی میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کردیا۔ حریت پسند اور سیاسی قیادت کو نظر بند اور کئی شہریوں ،سیاسی وسماجی رہنماٶں،صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

ہر قسم کے اجتماعات حتی کہ نماز جمعہ کی ادائیگی پر بھی پابندی عائد کردی گئی انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی نظام کو بھی بند کردیا گیا۔ بی جے پی 2014 میں مرکزی حکومت حاصل کرنے کے بعد ہی یہ ناپاک ارادہ رکھتی تھی مگر راۓ عامہ ہموار کرنے میں مشکل پیش تھی ۔

لہذا 2019 میں جیسے ہی مزید بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت میں آئی تو بہت ہی مختصر وقت میں یہ کہہ کر کہ جموں وکشمیر سے اندرون بھارت دہشتگردی کے واقعات ہوتے ہیں لہذا اب ان دفعات کا کالعدم ہونا ضروری ہے۔مزید جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس فیصلے سے کشمیر میں بھی امن وامان ہوگا کشمیریوں کے لئے خوش حالی کے دروازے کھلیں گے اور غیر ملکی سرمایہ کاری ہوگی۔

بھارتی حکومت کے اس ظالمانہ فیصلے کو اس وقت پانچ سال مکمل ہوچکے لیکن مقبوضہ ریاست کی عوام کے لئے کوئی مثبت یا قابل تعریف تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ خطے میں بھارتی ریاستی دہشتگردی اب بھی جاری ہے ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ یرغمال بنے ہوۓ ہیں کئی صحافی اب بھی گرفتار ہیں جن میں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ جاسوسی کے جدید آلات کے ذریعے پوری وادی کی کڑی نگرانی جاری ہے کاروباری مراکز کو سی سی ٹی وی سسٹم لگانے اور روزانہ بنیاد پر ڈیٹا جمع کرانے کے لیے مجبور کیا گیا ہے ۔

پی ایس اے جیسے کالے قانون کے تحت کسی بھی شہری کو بلاجواز گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ مسلم آبادی کی اکثریت کو ختم کرنے کے لئے بھارت کے مختلف علاقوں سے ہندو کمیونٹی کو بلاکر بسایا جا رہاہے اس کے لیے چالیس لاکھ سے زائد لوگوں کو کشمیر کا ڈومیسائل جاری کیا گیا ہے کئی کشمیریوں کی جائدادوں کو ضبط کرلیا گیا ہے بھارتی یونی ورسٹیوں میں کشمیری مسلم طلبہ کے ساتھ غیر مساوی سلوک رکھا جارہاہے۔

کئی کشمیری ماہر تعلیم اور اساتذہ کو ان کی ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا ہے۔دیکھا جائے تو مقبوضہ جموں کشمیر میں ایک طویل عرصے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں بھارتی حکام نے اپنے کالے کرتوت چھپانے کے لئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کوبھارت میں اپنا دفتر بند کرنے پر مجبور کیا۔ مقبوضہ کشمیر کی سیاسی جماعتوں کو تھوڑی بہت بھارتی سپریم کورٹ سے انصاف کی امید تھی لیکن اس نے بھی کشمیر کی سیاسی قیادت اور عوام کو مایوس کیا۔

پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کے لیے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے اور پاکستان اس کا پر امن اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل چاہتاہے جیساکہ بھارت نے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن کئی دہائیوں سے اس پر عمل نہیں کررہا اور ایک بڑی انسانی آبادی کو طاقت کے زور پر محکوم بناکر شہری اور بنیادی انسانی حقوق سے محرور رکھا ہوا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازعے کا سبب مسئلہ کشمیر ہے اور اس کا پر امن حل ناگزیر ہے کیوں کہ کشمیر کے حل سے ہی پورے برصغیر خطے کا امن وابستہ ہے ۔

لہذا اقوام متحدہ،عالمی برادری، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں پر یہ فرض بھی ہے اور انسانیت کے ناطے اخلاقی ذمہ داری بھی کہ وہ بھارت کے غیرقانونی اقدامات کا نوٹس لیں اور کشمیر کی عوام کو ان کا حق دلائیں تاکہ وہ خود اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرکے پرامن اور خوش حال زندگی گزار سکیں۔