کل اسکول میں ایک بڑی عجیب سی بات ہوئی بریک ٹائم میں ایک خاتون اپنی چھوٹی سی بچی کے بارے میں فکر مند نظر آرہی تھیں، میری وہی جستجو کی عادت کہ جا کے ان سے دریافت کر لیا کہ کیا ماجرا ہے تو وہ کہنے لگیں کہ کیا ہم اپنے بچے یہاں پلے گروپس میں اس لئے داخل کرواتے ہیں کہ وہ بیمار ہو جائیں۔ اب میری بچی کو ہی دیکھ لیں اس کو مثانے کی تکلیف ہو گئی ہے کیونکہ کلاس روم میں اس نے ٹیچر کو بتایا نہیں اور چھٹی تک کنٹرول کرتی رہی جس کی وجہ سے اب میں پریشان ہوں اور اس کو ڈاکٹر کےپاس لے کے جانا ہے لیکن اس کی ٹیچر کو یہ بھی بتانے آئی ہوں کہ آئندہ اس بات کا خاص خیال رکھیں ۔
یہ کہانی صرف ایک بچے کی نہیں بلکہ پلے گروپ جانے والی کافی معصوم بچوں کی ہے جو شرم اور جھجھک کے مارے اپنے مسائل اساتذہ کو نہیں بتا سکتے ۔ دیکھا جائے تو بچے ہمارے ہاں کا سب سے مظلوم طبقہ ہیں سب سے پسا ہوا اور اگر ہم اپنے قلم کے ذریعے ان کے مسائل ہی بیان نہیں کریں گے تو ہماری پوری نسل مسائل کا شکار رہے گی ۔
خیر موضوع پر ہی رہتے ہیں کہ آج کل جو یہ پلے گروپس بن گئے ہیں کہ بچے رنگ برنگی کپڑوں میں صبح روتے دھوتے اسکول جا رہے ہیں اور ان کی چھٹی بھی گیارہ کی بجائے دو بجے ہو رہی ہے اگر یہی کرنا ہے تو بچوں کو کچی پکی جماعت میں داخل کروا دیں اور دو تین بجے تک پڑھائیں ۔
بچے بھی اتنے معصوم تقریباًساڑھے تین تین سال کے جنہیں دیکھ ہی ترس آجائے۔پلے گروپس میں کیا سکھایا جا رہا ہے یہ مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا ، پہلی بات کوئی مڈل کلاس بندہ اس کو افورڈ نہیں کر سکتا ۔ دوسرا یہ صرف امیروں کے چونچلے ہیں ، بچے بجائے تفریح کے کوفت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ گنتی ، پہاڑے اور حروف تہجی ہم بچوں کو گھر پر بھی سکھا سکتے ہیں لیکن افسوس کی بات کہ آج کل کے والدین بھی اس کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔
میری والدہ کم تعلیم یافتہ تھیں لیکن اسکول جانے سے پہلے مجھے گنتی، اے بی سی، حروف تہجی اور کئی نظمیں سب یادکرادیتی تھیں۔ آج کل کی مائیں واقعی بچوں کے لئے ٹائم نہیں نکال پاتیں۔ اور سب کا سب الزام بے چارے استادوں پر ۔
میرے خیال میں پلے گروپس کے معیار کو یقینا بہتر بنایا جا سکتا ہے جس میں بچوں کے لئے صرف ایک یا دو گھنٹے کی کلاس رکھی جائے بچوں کو پر اعتماد بنایا جائے ان میں جھجک ختم کی جائے لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک احترام کی فضا کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ بچوں میں طبقاتی فرق کو کم کیا جائے یہ نہیں کہ ہزاروں میں فیسیں رکھی جائیں کہ کوئی متوسط طبقے کا بچہ اسے افورڈ ہی نہ کر سکے ۔