جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم

صبح صبح گروپ میں خبر پڑھ کر لگا کہ جیسے افواہ ہے۔ ایسا کیسے ہوسکتاہے۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ یقینا یہ خبر کسی دشمن نے اڑائی ہوگی۔ اسماعیل ہانیہ ارے نہیں نہیں۔۔ دماغ انکی سلامتی کی ہزار تاویلیں دے رہاتھا کہ جیسے یہ خبر تو سچی ہو ہی نہیں سکتی۔ نیشنل و انٹرنیشنل میڈیا نے جب خبر کی تصدیق کردی تولمحہ بھرکو ایسا محسوس ہواجیسے دل کو کسی نے مٹھی میں لیکربڑی زور سے مسل ڈالا ہو۔

یا اللہ یہ زندہ امید بھی گئی۔ اب بچوں کو کس زندہ ہیرو کی مثالیں دیں گے۔ ایسے مضبوط اعصاب اور توانا جذبے والا مردحر کہ جو اپنے تین بیٹوں اور عزیز از جان پوتوں کی ایک ساتھ شہادت کو اتنے تحمل، برداشت و بردباری سے سنتاہے۔ جیسے کہ یہ سب تو طے تھا ہی۔ یہی تو حقیقت یے۔ یہ سب تو اسکے لیے مزید ثابت قدمی کا باعث بنی ہو۔ اسکے پایہ ثبات میں مزید استحکام اور رب سے قرب کا ذریعہ بن گئی ہو۔

یا مالک یہ کون سی دنیا کے لوگ ہیں کہ بچے پوتے پوتیوں عزیز و اقارب، مال و اسباب ،دوست احباب سب کو یک لخت گنوانے کے باوجود رب سے مکمل یکسو ہوکر پر امیدہیں۔ سوائے حسبنا اللہ ونعم الوکیل کے علاوہ میں نے ان فلسطینیوں کے منہ سے کوئی کلمہ نہیں سنا۔ شاید آپ نے بھی نہ سنا ہو۔

جب دور حاضر کی سب سے بڑی نام نہاد سپر پاور اپنے جدید ترین آلات اسلحے و ٹیکنالوجی کے ساتھ نہتے شہریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑےانکے برسوں پرانے زیتون کے باغات میں آگ لگادے، انکی زمین مال و متاع پر ناجائز قبضہ کرلے۔ ان سے انکی دولت، بال بچے رشتہ دار کھیت کھلیان پارک جھولے سب کچھ چھین لے۔ انکو کیمپوں میں کسمپرسی کی زنگی گزارنے پر مجبور کردے، ان کے نہتے قافلوں پر مزائیلوں سے حملہ کرے، انکے معصوم بچوں کوعمر بھر کی معذوری و اپاہج زدہ زنگی گزارنے پر مجبور کر دے۔ اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود وہ ان کے جذبوں کو سرد نا کرسکے بلکہ یہ مظالم ان نہتے مظلوموں کے جذبوں کو مہمیز دینے کا ذریعہ بن جائیں۔

جب پوری دنیا ان معصوموں سے آنکھیں پھیرلے۔ جب پوری دنیا کی جدید ٹیکنالوجی کے مقابلے میں چند مٹھی بھر مجاہدین قبلہ اول کو بچانے کیلئے اس نام نہاد ناجائز ریاستی اداروں کی نیندیں حرام کردیں۔ جب دنیا کے تھنک ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں ایک بھی معصوم بچے کے جذبے کو کم نا کرسکیں تو سمجھ جائیے کہ یہ طاغوت اور اس سے منسلک تمام زمینی قوتیں ایک ایسی نادیدہ قوتوں سےمقابلہ کررہی ہیں جو ہزار کے لاو لشکر کو تین سو تیرہ کے نہتے جانثاروں سے شکست دینا جانتاہے۔ جو اپنی تمام کشتیاں ساحل سمندر پر جلادینے کے باوجود مٹھی بھر جذبہ ایمانی رکھنےوالی فوج سے اپنےوقت کی سپر پاور کو شکست فاش سے دوچار کرسکتاہے۔ جو محمود غزنوی سے سومناتھ کا بت تڑوا سکتاہے۔ 17سالہ محمد بن قاسم سے راجہ داہر جیسے شاطر کو شکست فاش دلواسکتا ہے۔ وہ کیا اپنی زمین پر قبلہ اول کے ستم رسیدہ، غریب، بھوکے پیاسے اور بھرپور دولت ایمانی سے آراستہ نہتے فلسطینیوں کی مدد نہیں کرسکتا۔۔۔۔ میرا ایمان ہے کرسکتاہے، بالکل کرسکتاہے کیونکہ،،،

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت پر

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندرقطار اب بھی

ضرورت صرف اور صرف پختہ ایمان اور فضائے بدر پیدا کرنے کی ہے۔ پھر رب کے انعامات کا وعدہ تو ضرور پورا ہوتاہے۔۔۔۔ کیونکہ ہر دور میں رب پر مضبوط ایمان والےنہتے موسی نےاپنے وقت کے سب سے بڑے فرعون کو شکست دی ہے۔

اسماعیل ہانیہ کی شہادت بھی امت مسلمہ کے جانثاروں کے جذبے سرد نا کرسکے گی۔ جو شہادت کو سعادت سجھتے ہیں جو اس سعادت کے لئے ہردم بیتاب ہیں ۔ اور سب سےپہلے خود امر ہونا چاہیں۔ تو ایسی جاں نثارقوم کو دنیا کی کوئی طاقت کوئی زمینی مصائب و آلام کوئی آزمائش مصیبت شکست نہیں دے سکتی۔

یا اللہ ہمارے دل بہت دکھے ہوئے ہیں ہم تیری امت کے کمزور لوگ ہیں مگر باخدا ہم ان صف شکن سینہ سپر بےتیغ مجاہدین سے دلی محبت کرتے ہیں۔ ہمارے دل ان کے لئے دھڑکتے ہیں جو امت کے مردہ ضمیر کو جگانے کے لئےاپنے گرم لہو سے فرض کفایہ ادا کررہے ہیں۔ یا اللہ اسماعیل ہانیہ آپ کے حضور حاضر ہوگئے۔ یقینا ان سب شہدائے اسلام کا جنت میں شاندار استقبال کیا جارہاہوگا۔ یا اللہ بس ایک چھوٹی سےعرضی لے کر تیرے در پر حاضر ہوئے ہیں کہ مالک قیامت کے دن ہم جیسے کمزور ایمان والوں کو ان کے ساتھ اٹھایئےگا۔ مالک ہم ان سے محبت کرتے ہیں۔ ہم انکے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ یااللہ کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ لیکن تو راہیں نکالنے والا ہے۔ ان تمام مجاہدین کی غیب سے مددفرما۔ ایک اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر تو ارض فلسطین کو سیکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں اسماعیل ہانیہ عطافرما جو اسرائیل کے ناپاک وجود کو صفحہ ہستی سے مٹادیں۔ یا اللہ امت مسلمہ کو پھر سے بہار تازہ کی خوشخبریاں عطا فرما۔ یا مالک اس مردہ زمین میں اپنے پاک لہو سے تازگی بخشنے والوں کی نسلوں کو تاقیامت زندہ رکھنا۔ آمین

نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوادیا

جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لٹادیا

مرے چارہ گر کو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو

وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چکادیا

کرو کج جبیں پہ سرِ کفن، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو

کہ غرورِ عشق کا بانکپن، پسِ مرگ ہم نے بھلادیا

اُدھر ایک حرف کے کشتنی، یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی

جو کہا تو ہنس کے اڑادیا، جو لکھا تو پڑھ کے مٹادیا

جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے

رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنادیا۔