ملک دشمن آئی پی پیز

اگرکسی بھی ملک کو تباہ کرنا ہو تو اس کی معیشت کو خراب کردو۔ اس ملک سے امن، کاروبار اور انسانی حقوق کا تحفظ ختم ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھی کچھ سالوں سے کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔

پاکستان کے عوام جو ہمیشہ سے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اس امید کے ساتھ روزانہ اٹھتے ہیں کہ ایک نیا سورج طلوع ہوگا اور پاکستان کے عوامی لیڈر ملک کیلئے کام کریں گے، مگر ہر روز اور ہر سال یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے، وہ عوام کی نہیں بلکہ بڑے بڑے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور بیرون ملک کے سرمایہ کاروں کی خدمت کرتی ہے۔ سیاسی رہنما عوام سے ہمیشہ قربانی مانگتے ہیں اور یہ عوام ہمیشہ سے اپنے تن، من، دھن کی قربانیاں دیتے رہے ہیں۔

ایک لیڈر جاتا ہے تو دوسرا لیڈر اس سے کہیں زیادہ مہنگائی کردیتا ہے۔ اور دوسرا لیڈر جاتا ہے تو تیسرا اور چوتھا اسی طرح مہنگائی کو بڑھاتا رہتا ہے۔ عوام پریشان ہو کر سوائے رونے کے اور کچھ نہیں کرپاتے۔ جب کبھی اس مہنگائی کے خلاف عوام آواز اٹھاتے ہیں تو اس آواز کو عوامی لیڈر خاموش کرا دیتے ہیں کیونکہ وہ لیڈر اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں اورپھر عوام کو خاموش کرادیا جاتا ہے۔ آج پاکستان میں بجلی 11 روپے یونٹ سے 65روپے یونٹ تک جا پہنچی ہے، جس سے لوگوں کا جینا عذاب ہوچکا ہے۔ عام آدمی سے لے کر امیر آدمی تک پریشان ہے کہ اتنی مہنگی بجلی کے ساتھ کس طرح اپنی زندگی اور کاروبار کیا جائے۔

بات آئی پی پیز کے معاہدے کی آتی ہے تو پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی تینوں نے آئی پی پیز سے معاہدے کیے ہیں، مگر افسوس، کہ تین بڑی پارٹیوں نے ہمیشہ ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہوئے عوام کو صرف بے وقوف ہی بنایا۔ ان پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے جتنے سیاست دان ہیں، وہ بھی خاموش نظر آتے ہیں۔ بجلی ایک ایسی ضرورت کی چیز ہے جس کے بغیر زندگی ناممکن نظر آتی ہے۔ غریب آدمی اپنی ساری تنخواہ اگر بجلی کے بلز بھرنے کیلئے لگادیتاہے تو وہ اپنا گھر کیسے چلائے؟ کاروباری حضرات بھاری بھرکم بلز کی وجہ سےاپنے کاروبار کونہیں چلا پارہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا دنیا میں ایسا کوئی بھی معاہدہ ہوتا ہے جس سے زیادتی ہویا وہ معاہدہ جو ناجائز طور پر کسی کو نقصان پہنچا رہا ہو، اس معاہدے کو آپ چیلنج نہ کرسکیں؟ انسانی حقوق کی عدالت ہو یا عالمی دنیا میں انصاف کا تقاضا، کیا عدالتوں کے دروازے غریبوں کیلئے بند ہوچکے ہیں؟ پاکستان کے عوام پر جو ظلم آئی پی پیز کے ذریعے ہورہا ہے، کیا اس ظلم کا کوئی جواب عدالت کے پاس ہے، کوئی سیاست دان اس پر عملی طور پر کچھ کام کرے گا، یا نہیں؟ آج حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ اور اپوزیشن دونوں کہہ رہے ہیں کہ بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ مگر کوئی بھی اس مسئلے کا حل بتا نہیں رہا۔ تو کیا عوام کسی مسیحا کے انتظار میں اپنی زندگی گزاریں یا کسی لیڈر کوعوام کے درد کا بھی احساس ہوگا؟

ہمارا دشمن ملک بہت اطمینان سے بیٹھا ہے، کیونکہ اسے پتہ ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر آئیں گے اورامن وامان کامسئلہ پیدا ہوگا۔ اس طرح ملک کے اندر دشمن کو حملہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کو اس ملک کا دشمن بنایا جارہا ہے۔ ہر پاکستانی کو بتایا جاتا ہے کہ اگر اس ملک میں رہنا ہے تو یہ ظلم سہنا پڑے گا۔ ایک دن ایسا آئے گاکہ عوام سڑکوں پر نکلیں گے اور پھر اس وقت ملک میں تباہی ہوگی اور اس تباہی کا ذمہ دار تمام وہ سیاست دان ہوں گے جو آج بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہونے پر خاموش بیٹھے ہیں۔

ہمارے حکومتی ماہر معیشت اس وقت وہ کام کر رہے ہیں جو دشمن ملک چاہتا ہے۔ دشمن ملک صرف آپ کو کامیابی کے خواب دکھا کر آپ کے ملک میں بے تحاشا مہنگائی روزانہ کی بنیاد پر کر رہا ہے اور یہ کہہ کر کہ آئندہ چند ماہ کے اندر چیزیں بہتر ہوجائیں گی، اور وہ اسی طرح کہ ڈاکو کی ایمانداری کی گواہی چور دیتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ دیکھیں تو ہمارے دشمن ممالک کے ادارے ہمیں کہہ رہے ہیں کہ بجلی مہنگی کرنے سے اور مزید ٹیکس لگانے سے ملک ترقی کرے گا۔ ملک کیسے ترقی کرے گا جب عوام ڈوب رہے ہوں اور روزانہ کی بنیاد پر ان کی زندگیاں دوزخ کا منظر پیش کر رہی ہوں۔

عوام کی بات نہیں سنی جارہی۔ اب بھی اداروں کو چاہئے کہ حکومت اور اپوزیشن کے اندر جو لوگ صرف مہنگائی کی آواز لگا رہے ہیں اور تنقید کر رہے ہیں اور امیدیں دلارہے ہیں، ان کو کہا جائے کہ باتوں سے نہیں، کام سے اس عوام کے مسائل کو حل کریں اور بجلی کی قیمتوں کو دوبارہ 11 روپے یونٹ پر لے کر آئیں، ورنہ پھر اداروں کی سختی کی وجہ سے حکومتی نمائندے عوام کو اور اداروں کو بے وقوف بنائیں گے کہ 65روپے کی بجلی کو 10 روپے کم کرکے دکھایا جائے۔ صرف 10 روپے یا20روپے کم کرنا مسئلے کا حل نہیں، مسئلہ اس وقت حل ہوگا جب بجلی 11 روپے فی یونٹ کی جائے گی اور یہ کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔ یہ جو معیشت کے ماہر ہیں، اکنامک پلان اور اکنامک ماڈل کے تحت چیزوں کو آج بھی بہتر کرسکتے ہیں۔ مگر اس کیلئے ہمیں امپورٹڈ منسٹر یا معاشیات کے لوگوں کو ہٹا کر پاکستان کے حب الوطن ماہر معیشت اور حب الوطن لوگوں کو وزارتِ خزانہ دینی پڑے گی۔