آزاد اسلامی ملک

یونیورسٹی میں ہر طرف آوازوں کی گونج تھی۔ لڑکیوں کے قہقوں کی آوازیں اور کہیں باتوں کا شور اور کوئی گھر سے لایا ہوا ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔ جگہ جگہ لڑکیوں اور لڑکوں کے گروپ نظر آ رہے تھے۔ کہیں لڑکے لڑکیاں اکٹھے کھڑے تھے۔ چونکہ ابھی یونیورسٹی ٹائمنگ شروع نہیں ہوئی تھی اس لئے ہر طرف کافی چہل پہل اور رونق تھی۔ کچھ اسٹوڈنٹس ابھی آرہے تھے جونہی پہلے پیریڈ کی گھنٹی بجی سب اپنی کلاسز میں بھاگ گئے۔ اب اسٹوڈنٹس اکا دکا ہی کلاس سے باہر رہ گئے تھے۔ بریرہ،عالیہ، لائبہ اور جویریہ بھی گپ شپ لگاتی کلاس کی طرف جارہی تھیں۔ اچانک سے لائبہ کو کچھ یاد آیا وہ زور سے چلائی “عالیہ تم آج ہمیں منگنی کی ٹریٹ دے رہی ہو” پھر وہ سب عالیہ سے ٹریٹ مانگنے لگیں۔ “اچھا دے دوں گی ٹریٹ لیکن ابھی کلاس میں چلو جلدی پہلا پیریڈ شروع ہو چکا ہے ” ارے لیکن نمرہ تو آئی نہیں ابھی تک” بریرہ اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ پیچھے سے نمرہ آواز لگاتی ان کے ساتھ ہی کلاس میں داخل ہوئی”لو بریرہ میں آگئی تم مجھے ہی یاد کر رہی تھیں نا ” نمرہ بولی اور اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے قہقہ لگا کر ہنس پڑی وہ سب بھی اپنی سیٹ پر بیگ رکھ کر بیٹھ گئیں۔ وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن نمرہ آج تم نے کیا حلیہ بنایا ہوا ہے؟ لائبہ نے نمرہ کو حیرت سے دیکھا وہ ابھی اتنا ہی بول پائی تھی کہ انگلش کی لیکچرار کلاس میں آگئیں۔ پیریڈ کے دوران ہی لیکچرار کی نظریں نمرہ پر گئیں وہ بھی عجیب نظروں سے نمرہ کو دیکھنے لگیں- انہوں نے نمرہ سے کہا “آپ جانتی ہیں ہمارا ادارہ جدید ترین اداروں میں سے ہے اگر آپ اس حلیے میں یونیورسٹی آئیں گی تو سب پر کیا امپریشن پڑے گا؟ “ابھی چینج کرو جاکر اتارو اس کو “تم اس حلیے میں کلاس میں نہیں بیٹھ سکتی”

نمرہ آج بہت افسردہ تھی کیونکہ آج یونیورسٹی میں اس کا دن بہت برا گزرا تھا۔ پہلے ہی پیریڈ میں لیکچرار نے نمرہ کی اچھی طرح کلاس لی تھی۔ چھٹی کے وقت باہر آتے ہوئے نمرہ نے بریرہ کو آواز دی جو کہ گیٹ کے پاس کچھ فاصلے پر کھڑی تھی۔ بریرہ ! آواز لگاتے اس کے پاس آکر کھڑی ہوگئی اور اپنی گاڑی اور ڈرائیور کا انتظار کرنے لگی۔ نمرہ نے ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولی جہاں پیسے کی خوب ریل پیل تھی۔ وہ اپنے والدین کی لاڈلی بھی تھی بھائیوں کی تو نمرہ میں جان بستی تھی۔ وہ اوپر نیچے پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ اس لئے سب اس کے خوب ناز نخرے اٹھاتے تھے۔ نمرہ کی ہر خواہش اس کے منہ سے نکلتے ہی پوری کردی جاتی تھی۔ یونیورسٹی فیلوز میں بھی نمرہ نمایاں تھی اس کی ہائی لیول کی ڈریسنگ اور ہر وقت خود کو نک سک سے درست رکھنا اس کی شخصیت میں چار چاند لگا دیتا۔ وہ سب میں منفرد نظر آتی کالج تک تو نمرہ میں لا ابالی پن تھا ہی لیکن یونیورسٹی آتے ہی نمرہ میں تھوڑی سی سنجیدگی نظر آنے لگی تھی۔ وہ کچھ دنوں سے محسوس کر رہی تھی کہ کلاس کے لڑکے ان لڑکیوں کو دیکھ کر ایک دوسرے کے کان میں کھسر پھسر کرنے لگتے اور کبھی کبھار تو لڑکیوں پر کمنٹس بھی کر دیتے تھے۔

ایک دن تو جب ڈرائیور چھٹی پر تھا اتفاق سے نمرہ کا بھائی اسے لینے آیا ہوا تھا۔ اس کا کلاس فیلو جنید جو اکثر اسے ذومعنی نظروں سے دیکھتا تھا۔ نمرہ کے قریب ہی چلا آیا اور بولا “آپ کی ڈریسنگ بہت اچھی ہے” نمرہ کا بھائی بھی اس طرف ہی آرہا تھا۔ نمرہ نے بھائی کو دیکھتے ہی تھوک نگلا کیونکہ وہ جانتی تھی کسی لڑکے کو نمرہ کے اتنی قریب دیکھ کر اس کا بھائی کبھی برداشت نہیں کرے گا۔ جنید نے نمرہ کی نظروں کے تعاقب میں اس کے بھائی کو دیکھا تو وہ وہاں سے چلا گیا تھا- لیکن نمرہ ابھی تک سوچ رہی تھی کہ اگر اس کے بھائی نے اسے دیکھ لیا ہوتا تو وہ جنید کی بہت بری حالت کرتا۔ وہ خاندان میں بھی نمرہ کو لڑکوں سے فری ہونے نہیں دیتا تھا۔ اب نمرہ پورا وقت یہی سوچتی رہی کہ اس مسئلے سے کیسے نکلا جائے؟ کیونکہ پہلے تو جنید اور اس کے دوست لڑکیوں کو صرف ذومعنی نظروں سے دیکھتے تھے- لیکن اس دن تو جنید نے نمرہ کی ڈریسنگ کی تعریف ہی کر ڈالی تھی۔

اس الجھن کا حل نہ ملا تو موبائل پر ویڈیوز دیکھ کر اپنے ذہن کو دوسری طرف لگایا۔ لگی اس کی نظر سے ایک ویڈیو گزری جس میں دکھایا جارہا تھا کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو بتا رہا ہے کہ کیسے پردہ کرکے اپنے اوپر پڑنے والی غلیظ گندی نظروں سے بچا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو میں بچی کے باپ نے دو کیلے لئے اور ایک کیلے کا چھلکا اتار کر اسے فرش پر رکھ دیا- جب کہ دوسرے کو چھلکے سمیت رکھا۔ تھوڑی ہی دیر میں نظر آیا کہ جو کیلا چھلکے کے بغیر تھا اس پر بہت زیادہ تعداد میں مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں جبکہ دوسرا بالکل محفوظ تھا ۔ اس پر کوئی مکھی نہیں تھی- اس کے باپ نےاسے بتایا کہ اگر تم بھی خود کو اس طرح ڈھانپ کر رکھو گی تو کوئی تم پر بری نظر نہیں ڈال سکے گا۔ جس طرح چھلکے والا کیلا مکھیوں سے محفوظ رہا۔

اور اگلی ویڈیو میں یہ آیت تلاوت کی جارہی تھی۔

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ يُدۡنِيۡنَ عَلَيۡهِنَّ مِنۡ جَلَابِيۡبِهِنَّ ؕ ذٰ لِكَ اَدۡنٰٓى اَنۡ يُّعۡرَفۡنَ فَلَا يُؤۡذَيۡنَ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ۞

ترجمہ:

اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں) پر چادر لٹکا (کر گھونگھٹ نکال) لیا کریں۔ یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

نمرہ کو لگا کہ یہ دونوں ویڈیوز جیسے اس کے ذہن میں چلنے والے سوالوں کے جواب ہیں- اسے یقین تھا یقینا پردہ کرکے وہ ان لڑکوں کی گندی نگاہوں سے بچی رہ سکتی ہے- اسی لمحے اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب سے وہ حجاب کرے گی۔ لیکن آج صبح ہی اس کی لیکچرار نے حجاب کرنے کی وجہ سے اچھی خاصی سنا دی تھیں۔ اسے کہا اپنے اس حلیے کو فورا چینج کر کے آؤ ہماری یونیورسٹی میں حجاب نہیں چلے گا “لیکن جب نمرہ نے کہا کہ وہ حجاب نہیں اتارے گی تو اسے کلاس سے باہر کا راستہ دکھا دیا۔ اب چھٹی کے وقت نمرہ بریرہ کے پاس آکر کھڑی ہوئی تو بریرہ بولی “یہ تمہیں اچانک کیا ہوگیا ہے؟”نمرہ آج تم حجاب میں کیوں آئی ہو ؟ تمہیں یہ شوق کب سے پیدا ہوگیا مولویانی بننے کا؟ “اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے میں یہ حجاب کبھی نہیں اتاروں گی۔ پھر یہ اللہ کا حکم بھی تو ہے۔ “ابھی نمرہ اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ اس کی گاڑی آگئی اور وہ چلی گئی-

اگلے دن یونیورسٹی کے لیے نمرہ نے اہتمام سے حجاب کیا اور یونیورسٹی چلی گئی۔ اس کی لیکچرار نے آج پھر اسے کہا کہ وہ حجاب اتار دے نہیں تو وہ پرنسپل کو شکایت کردیں گی- نمرہ سوچنے لگی یہ کیسا اسلامی ملک ہے جس میں اللہ کے حکم پر عمل کرنا ناممکن ہوگیا ہے؟