ڈے کئیر سنٹرز میں بچوں کو رکھنے کا تصور نیا اس لئے نہیں کہ جب ہمارے ہاں ملازمت پیشہ یا مصروف کاروباری خواتین کے پاس بچوں کی دیکھ بھال کا وقت نہیں ہوتا تو گھر میں ساس ( بچوں کی دادی ) یا پھوپھو ایک طرح سے بچوں کی پورا دن دیکھ بھال کرتی ہیں اور وہ بھی بلا معاوضہ ۔
میری ایک کزن اپنی بچیوں کو اپنی والدہ کے پاس پورا دن کے لئے چھوڑ کر آتی تھیں اور اس دوران وہ ان کی طرف سے بالکل بے فکر ہوجاتی تھیں ۔ بچوں کو کوئی ٹھوس غذا دینی ہو یا وہ رو رہا ہو یہ سب کام نانیاں اور دادیاں بخوشی کر لیا کرتی تھیں لیکن اب حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈے کئیر سینٹرز بن رہے ہیں ۔ ہمارے ہاں زیادہ تر اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں ایسے مراکز قائم ہیں کیونکہ یہاں کی خواتین ہی زیادہ تر نوکری کرتی ہیں ۔
ہمارے ملک کے اداروں کے قانون کے مطابق جن اداروں میں پچاس یا اس سے زیادہ خواتین ملازمت پیشہ ہوں وہاں ایسے دفاتر کے لئے ضروری ہے کہ وہ ڈے کئیر کی سہولت فراہم کریں ۔ سن دو ہزار سات میں جرمنی میں ایک اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں ڈے کئیر سینٹرز سے متعلق اہم فیصلے کرنا تھے لیکن اس کا اطلاق بہت دیر سے یکم اگست دو ہزار تیرہ میں ہوا ۔
اہم مسئلہ یہ ہے کہ کتنی عمر کے بچے یہاں ڈے کئیر سنٹرز میں ہوں ۔ عموما یہاں بچوں کو دو طرح کے گروپس میں بانٹا جاتا ہے جن میں ایک بہت ہی چھوٹے یعنی نوزائیدہ ہوتے ہیں جیسے فاطمہ جناح یونیورسٹی میں تین سے سات ماہ کی عمر کے بچے رکھے جاتے ہیں۔ کیوبا میں تین ماہ سے کم عمر بچے کو ڈے کئیر سنٹرز میں نہیں لیتے ۔ کچھ ادارے ایسے ہیں جو خود بھی ڈے کئیر سنٹرز کی سہولت فراہم کرتے ہیں جیسے کئی بڑی کمپنیاں اور تعلیمی ادارے جہاں ان بچوں کی مائیں تدریس کے فرائض سرانجام دیتی ہیں ۔ عمر کا فرق ہر جگہ پر مختلف ہے ۔
فیس کے معاملے پر آئیں تو پہلے رجسٹریشن فیس ہی اڑھائی ہزار روپے سے شروع ہو رہی ہے اور ماہانہ فیس تین سے پانچ ہزار تک یہ بھی صرف ایک اندازہ ہی ہے کیونکہ آج کل کی مہنگائی کے مطابق فیس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ جاپان میں بیس لاکھ سے زاید بچے ڈے کئیر سینٹرز میں رہتے ہیں ۔ ڈے کئیر سینٹرز کے اگر فوائد ہیں تو وہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں لیکن ان کے نقصانات کی فہرست کافی طویل ہے ۔
بلاشبہ ڈے کئیر سنٹرز ایسے ہیں جہاں خواتین جو ملازمت پیشہ ہوں انہیں آسانی ملتی ہے کہ وہ وہ تمام تر تفکرات سے بالاتر ہو کر اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتی ہیں لیکن کیا وہاں موجود آیا اور دیگر خدمت گار خواتین ممتا کا نعم البدل ہیں ؟ یقیئنا نہیں ۔ بچہ بیمار ہو یا کسی بھی الجھن کا شکار ہو ماں کے ایک ہلکے سے لمس سے ہی ٹھیک ہو جاتا ہے ۔
میں نے کئی مراکز کا حال دیکھا جہاں بچوں سے بالکل بے فکر ہو کر خواتین آرام سے بیٹھی ہیں اور بچے روئے چلے جا رہے ہیں ۔ بچوں کو ان کی مائوں کی غیر موجودگی میں سختی سے ڈانٹا جا رہا ہے اور بعض اوقات ہلکے پھلکے تھپڑ بھی رسید کئے جا رہے ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام لوگ ایک جیسے نہیں کئی خواتین اپنی ممتا کو تسکین دینے کے لئے ان بچوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتائو کرتی ہیں لیکن کوئی دس یا پندرہ ہزار ماہوار تنخواہ پانے والی کیا ان سنٹرز کو افورڈ کر سکتی ہے ؟
ڈے کئیر سنٹرز میں جو سارا دن بچہ ماں سے جدا رہتا ہے جب وہ بڑا ہو گا تو اسے معلوم ہوگا کہ اس نے بچپن ماں کی گود میں کھیل کر نہیں گزارا ۔ ڈے کئیر سینٹرز میں سیکیورٹی اور صفائی کے انتظامات بھی اچھے ہونے چاہیں جو اکثر اوقات نہیں ہوتے ۔ امریکا میں سن دو ہزار نو میں میکسیکو کے علاقے میں ایک بڑے ڈے کئیر سینٹر میں آگ لگی اور اس آتش زدگی کی وجہ سے یہاں انتیس بچے ہلاک ہو گئے موت کے منہ میں جانے والے ان بچوں کی عمریں تین ماہ سے تین سال تک تھیں ۔
دیکھا جائے تو ہم اپنے بچوں کو کیسا ماحول دے رہے ہیں جس میں ہم اپنا پیسہ بھی ضائع کر رہے ہیں اور اپنی نسل بھی ۔ جن گھروں میں کوئی بڑا بزرگ نہیں چلیں وہاں تو پھر کوئی مسائل ہیں لیکن جہاں نانیاں دادیاں ہیں وہاں پر کیا ایشو ہے ؟ اور یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جب ساسیں یہ توقع کرتی ہیں کہ انہیں جاب کرنے والی بہو ملے تو پھر انہیں اس حوالے سے دل بھی بڑا کرنا چاہیے کہ اپنے بیٹے کی اولاد پال کر اپنی بہوئوئوں کو بھی تھوڑا سکون اور آرام دیں اور اپنی آغوش میں اپنے بچوں کو پروان چڑھا کر معاشرے کا ایک کارآمد شہری بنائیں ۔