فی زمانہ ہر شخص سکون کی ہی تلاش میں ہے۔ امیر سے امیر شخص کو دیکھیں چاہے وہ بل گیٹس ہو یا دنیا کا کوئی اور امیر شخص، کسی بڑے عہدے پرفائز یا کسی ملک کا وزیراعظم، کسی سلطنت کا بادشاہ ہو یا زندگی کےکسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو ہر ایک کی یہ ہی آرزو ہے کہ مجھے کسی طرح سکون مل جائے۔
سکون کی تلاش دنیا کا سب سے زیادہ تحقیق کیا جانے والا موضوع ہے۔ ہمارے نوجوانوں میں یہ بڑی غلط فہمی ہے کہ شاید دولت سے سکون حاصل ہوتا ہے۔ ایک مثال سے موضوع کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ایک کمپنی میں آپ ملازمت کرتے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ اپنے نو سے پانچ تک کام کے اوقات میں اپنے مالک کی بغاوت کر کے، اس کے حکم سے انکار کر کے آپ پرسکون رہ سکیں گے ؟ ہرگز نہیں آپ کے دل میں ہر وقت ڈر ہوگا کہ مینیجر میری شکایت لگا دے گا، ساتھی مالک کو بتا دیں گے، مالک کو خود بھی پتہ ہے کہ یہ میرا باغی ہے لیکن وہ نظر انداز کرتا ہے کہ میرے پاس 500 لوگ کام کرتے ہیں۔ کیا کسی کا رزق چھیننا، ایک دن نظر انداز کرے گا دو، تین ، چار دن آخر کار کب تک ؟ تنگ آ جائے گا اور پھر آپ کی پکڑ شروع ہو جائے گی۔ پہلے آپ کو تنبیہ کی جائے گی اور اگر آپ باز نہ آئے تو آپ کو کمپنی سے نکال دیا جائے گا۔
حقیقت حال بھی یہی ہے کسی بڑے سے بڑے اسکالر کو آپ پڑھ لیں نتیجہ یہ ہی اخذ کیا جائےگا جب انسان اپنے مالک سے جڑ جاتا ہے، اس کا فرمانبردار بن جاتا ہے تب پائیدار سکون حاصل کر پاتا ہے، ہمارے دنیاوی مالک تو صرف مالی فائدہ دیتے ہیں۔ آپ کو پیسے دیتا ہے ،کھانا بنا کر نہیں دیتا، سہولتیں گھر لا کر نہیں دیتا، آپ کی بیماری میں آپ کو صحت نہیں دے سکتا۔ زیادہ سے زیادہ آپ کو ڈاکٹر تک لے کے جاتا ہے، پیسے دے سکتا ہے لیکن ہمیں جس اللہ رب العزت نے پیدا کیا ہے وہ رزق بھی دیتا ہے، حفاظت بھی کرتا ہے ، صحت بھی عطا کرتا ہے۔ اس لئے ہمیں اپنا تعلق حقیقی مالک سے جوڑنا ہے۔
ہمارے نبیﷺ کی سیرت کے مطالعے سے پتہ چلے گا کہ دنیا کی سب سے زیادہ پر سکون شخصیت نبی اکرمﷺ رہے، حالانکہ اگر ظاہری مشکلات دیکھی جائیں تو آپ کی ساری زندگی مشکلات میں گزری جب پیدا ہوئے تو والد گرامی نہیں تھے ، کچھ عرصہ بعد والدہ کا انتقال ہو گیا پھر شفیق دادا بھی نہیں رہے چچا نے پالا۔ اللہ رب العزت نے نبوت کے اعلان کا حکم دیا تو آپ کے رشتہ دار ہی دشمن بن گئے ۔ آپ کو اپنا عزیز شہر چھوڑنا پڑا ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی تربیت کرنا ایک کٹھن کام تھا چونکہ آپ کا تعلق مخلوق کی بجاے خالق کے ساتھ تھا اس لیے آپ ہمیشہ پرسکون اور مطمئن رہتے تھے ہم کہہ تو دیتے ہیں ہم مسلمان ہیں ۔ اگر ہم نبی کریم ﷺ کی زندگی کو اپنے اندر عملی طور پر نافذ کر دیں تو حقیقی معنوں میں ہمیں وہ سکون حاصل ہو جائے گا جس کی ہمیں تلاش رہتی ہے ۔