بحیثیت قوم اگر ہمارا جائزہ لیا جائے تو ہمارے معاشرے میں تمدنی شعور کا فقدان پایا جاتاہےہم خود کو اجتماعی ذمہ داریوں سے مبرا سمجھتے ہیں۔ ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ میرے علاوہ باقی سب ٹھیک ہوجائیں۔
جہالت سے تمام تعلیم یافتہ طبقے کو نفرت اور شکایت ہےلیکن ہمیں خود سے سوال پوچھنا چاہیے کہ ملک سے جہالت ختم کرنے میں ہمارا انفرادی یا اجتماعی سطح پر کیا کردار ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو یہ ایک مثبت قدم ہے اگر نفی میں ہے تو ہمیں اس پر سوچنا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ صفائی نصف ایمان ہےنظام کی کمزوریاں اپنی جگہ لیکن ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اپنے شہروں، گلی محلوں، پارکوں کو صاف ستھرا رکھنے میں ہمارا کتنا عمل دخل ہے کسی بھی مہذب معاشرے میں قانون توڑنا معیوب سمجھا جاتاہے لیکن یہاں الٹ ہے قانون پر عمل درآمد نہ کرنا ہمارے لیے باعث فخر امر ہے۔
روزمرہ زندگی کے جس پہلو کو اٹھا کر دیکھتے ہیں انتہا درجے کی بد نظمی نظر آتی ہے کیا اے ٹی ایم استعمال کرتے وقت ہم خواتین کو اولیت دیتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین اور بزرگوں کا کتنا خیال رکھا جا تا ہے؟ کیا ہم ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ کرتےہیں؟ کیا ہماری سوچ اپنی ذات تک محدود ہے یا اجتماعی مفادات پر بھی نظر رکھتے ہیں؟ کیا احتجاج، جلسے جلوس اور ریلیوں کے دوران ہم سرکاری املاک کا خیال رکھتے؟ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ سرکاری املاک کو نقصان پہچانا دراصل ہمارا اپنا ہی نقصان ہے کیوں کہ اس پر ہمارا ہی پیسہ خرچ ہوتاہے جو ہم ٹیکس کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔
میرا تو مشاہدہ رہاہے کہ جہاں جہاں ہمیں نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے وہاں ہم بدنظمی کرنے میں پیش پیش پائے جاتے ہیں۔ مرحوم طارق عزیز کے نام اور ان کی حب الوطنی سے کون واقف نہیں، ایک مرتبہ میں پی ٹی وی پر ان کا پروگرام دیکھ رہا تھا ان کا مزاج تھا کہ پروگرام کے آخر میں کوئی ایک نصیحت یا مفاد عامہ کا اہم نکتہ بیان کرتے تھے انہوں نے پروگرام کے آخر میں جو بات کہی وہ آج تک میرے ذہن پر نقش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم سب پاکستانی صرف اپنے گھر کا ایک ایک بلب بند رکھیں تو ہمارے اس عمل سے بجلی کی بچت ہوگی اور کئی کارخانے چل پڑیں گے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا دیکھیں کتنی خوبصورت بات کہہ گئے ہیں۔
دیکھا جائے تو آج وطن عزیز میں توانائی کا بحران ہے ان کی اس بات پر عمل کرنا آج وقت کی شدید ضرورت ہے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر آج اپنے ارد گرد کا جائزہ لیا جائے تو بجلی کا بے جا استعمال کرنے میں ہم گھریلو صارفین، سرکاری ونجی دفاتر میں کام کرنے والے سب برابر ہیں ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں ہم انفرادی اور اجتماعی مفادات کا خیال نہیں رکھتے جس کے نتیجے میں مسائل جڑ پکڑ گئے ہیں۔
افسوس کا امر یہ بھی ہے کہ اس طرح غیر منظم زندگی گذارنے کے عادی ہوچکے ہیں اس لیے ہمارا اس طرف دھیان ہی نہیں جاتا کہ معاشرے کو ٹھیک کرنے میں فرد کی حیثیت سے کس کی کتنی ذمہ داری بنتی ہے تعلیمی اداروں میں تمدنی شعور کے متعلق تعلیم نہیں یہ ایک الگ المیہ ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ تمدنی شعور کے متعلق طلبہ کو باقاعدہ تعلیم وتربیت فراہم کی جائے جس سے ہم مستقبل میں قابل ذکر نتائج حاصل کرسکیں۔
تمدنی شعور کو فروغ دینے کے لیے حکومتی اداروں، مختلف این جی اوز تعلیمی اداروں کو مل کر اقدامات اٹھانا ہوں گے یہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ اداروں کے ساتھ عوام کو اس میں بھرپور تعاون کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بظاہر یہ آپ کو جزوی مسائل نظر آئیں گے لیکن ان سے صرف نظر کرنا کسی صورت ممکن نہیں ان جزوی مسائل سے ہی کلی سطح پر اصلاحات کا سفر طے ہوگا اور ہم ایک مثالی اور صحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں گے تاکہ ہم نہیں تو کم سے کم ہماری اگلی نسلیں ہی ایک نارمل زندگی گزار سکیں۔