مطالعہ کیوں ضروری؟

دنیا میں جن لوگوں نے کوئی مقام حاصل کیا ہے یا کسی بھی فن یا اپنے کمال کی وجہ سے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ تو یا ان کی شخصیت پر یا ان کے کمالات و حاصلات پر ان کے فکر و فن پر لوگوں نے مضامین، مقالے یا کتابیں لکھی ہیں یا خود ان صاحب کمال لوگوں نے اپنے فنون و کمالات پر اپنے تجربات و مشاہدات کوقلم بند کیا ہے تا کہ دوسرے لوگ بھی ان سے مستفید ہوسکیں۔

ان تمام تخلیقات سے مستفید ہونے کا جو بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان مضامین، مقالوں، کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مطالعہ کے ذریعے سے ہمیں ان صاحب کمال لوگوں کی زندگی کے متعلق گہری معلومات ملتی ہے جس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور ان کے تجربات کو اچھی عادتوں کو اور ان اصولوں کو جن سے انہیں فائدہ پہنچا ہے پر عملدر آمد کرکے اپنی زندگی میں بہتری لاسکتے ہیں مطالعے کی اس اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری شخصیت میں نکھار آجاتاہے اسی طرح علمی استعداد میں اضافہ ہوتاہے، ہماری تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتاہے۔

آئیے مطالعے کی اہمیت کے متعلق ایک نظر ان شخصیات کے اقوال پر ڈالتے ہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر دنیا بھر میں شہرت پائی ہے وہ مطالعے یا کتب بینی کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔

گورچ فوک کہتے ہیں ”اچھی کتابیں وہ نہیں جو ہماری بھوک ختم کردیں بلکہ اچھی کتابیں وہ ہیں جو ہماری بھوک بڑھائیں زندگی کو جاننے کی بھوک۔

ائولس گیلیوس کہتے ہیں ”کتابیں خاموش استاد ہیں.

فرانس کافکا کہتے ہیں ”ایک کمرہ بغیر کتاب کے ایسا ہی ہے جیسے بغیر روح کے ایک جسم۔

گھٹولڈ لیسنگ کہتے ہیں کہ ”دنیا اکیلے کسی کو مکمل انسان نہیں بنا سکتی اگر مکمل انسان بننا ہے تو پھر اچھے مصنفین کی تصانیف پڑھنا ہوں گی۔

اسی طرح اور بہت سی مسلم اور غیر مسلم شخصیات کے مطالعہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے اقوال کی تعداد اتنی ہے کہ اگر ان کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے گی مگر یہاں ان چند اقوال سے ہی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن اقوام نے دنیا میں ترقی کے آسمان کو چھوا ہے ان کے مفکرین اور دانش ور مطالعے اور کتب بینی کو کتنی اہمیت دیتے ہیں آخر میں ایک سوال کیا مطالعہ کرنا اور کتب بینی ہماری ترجیحات میں بھی شامل ہے؟