عظمت انسانیت کے امیں ’’حسین‘‘۔

اس سانحے کو قیدِ زمین و زماں نہیں

اک درسِِ دائمی ہے شہادت حسین کی

یہ رنگ وہ نہیں جو مٹانے سے مٹ سکے

لکھی گئی ہے خوں سے امامت حسین کی

یزید کی ولی عہدی اسلام میں ایک ایسی بدعت تھی، جس نے اسلامی نظام کی پوری عمارت کو ڈھا دیا ۔ وہ 60 ہجری میں جب تخت نشیں ہوا تو بزرگ صحابہ نے خلافتِ اسلامیہ کے مزاج میں اس تبدیلی کو بڑی شدت سے محسوس کیا ۔ ان میں سے ایک حضرت امام حسین علیہ السلام تھے جنہوں نے رسولً خدا اور جگر گوشۂ رسول حضرت فاطمتہ الزہراء اور غم زادۂ رسول حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی آغوش میں پرورش و تربیت پائی تھی ۔ آپ نے صحابہ کرام کی رفاقت میں عمر گزاری تھی ۔ خلفائے راشدین کا سنہری دورِ خلافت اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ یزید کے تخت نشیں ہوتے ہی انہوں نے بھانپ لیا کہ اب صدیق و فاروق کے فقر و استغنا کی بجائے قیصر و کِسرٰی کا سا ٹھاٹھ باٹھ اختیار کیا جائے گا۔ خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو جائے گی ۔ خلیفہ جبراً مسلمانوں پر مسلط کئے جائیں گے۔ اظہارِ رائے کی آزادی چھن جائے گی ۔ قوانین قرآن وسنت کی بجائے بادشاہوں کی مرضی کے مطابق بنیں گے ۔ نواسۂ رسول ان سب غلط کاریوں کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ لہذا وہ پوری قوت اور عزم کے ساتھ اٹھے اور اس عظیم مقصد کی خاطر تن من دھن کی بازی لگا دی۔

ذرا چشم تصور سے دیکھئے ! کربلا کا میدان ہے، دریائے فرات کے کناروں پر سرخ ریت بچھی ہے۔ رات کا وقت ہے ایک طرف بجھے ہوئے دیے کے پس منظر میں بہتر پاکیزہ نفوس ہیں جو امامِ عالی مقام کے اشارے کے منتظر ہیں کہ احیائے اسلام کے لئے اپنی جانیں قربان کردیں۔ دوسری جانب کفار کا لشکر جرار ہے۔ کوفی اپنے وعدے سے پھر چکے ہیں۔ ان کی تین شرائط ہیں۔ یزید کی بیعت کرلیں یا ہتھیار ڈال دیں اور اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کر دیں۔ بصورت دیگر جنگ کے لئے میدان میں آجائیں۔ آخر کار ہتھیار ڈالنے اور بیعت کرنے کی شرائط رد کر دی جاتی ہیں۔ مومن باطل سے ٹکرانے اور اسے نیست و نابود کر دینے کے لئے میدان عمل میں اتر آتے ہیں۔ شجاعت کے جوہر دکھاتے ہیں اور رتبۂ شہادت پر فائز ہو جاتے ہیں۔

سردرد نے داد دست، در دست یزید

حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین

حضرت امام حسین نے عزت نفس اور خود داری کا ثبوت دیا اور غلاموں کی طرح جھکنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے سانحہ کربلا سے پہلے ایک خطبے میں فرمایا میں جلد ہی روانہ ہو جاؤں گا۔ جب انسان کی نیت نیک ہو اور مسلمان کی مانند جہاد کرے۔ نیکیوں پر جاں نثار کرتا ہو اور مجرموں سے علیحدہ رہتا ہو تو اسے مرنے میں کوئی عار نہیں ہو سکتی۔ اگر میں زندہ رہا تو شرمندگی نہ ہوگی اور مارا گیا تو ملامت نہ ہوگی مگر خوار ہو کر زندہ رہنے میں بڑی ذلت ہے”۔

امام عالی مقام نے عزت کے ساتھ جینے کا سبق دیا۔ اُن کی شہادت کی خوشبو آج بھی تر و تازہ ہے۔ حسین اور یزید ہر دور میں ہوتے ہیں جو باہم بر سر پیکار رہتے ہیں ۔ جو طاقت کے زور پر اقتدار پر قابض رہنا چاہے، اسلام کے پیغام کو بھول جائے اور عیش و عشرت کی زندگی گزارے وہ یزید کا پیروکار ہوتا ہے۔ جو اصولوں اور نظریات کی خاطر طاقتور کے سامنے ڈٹ جائے اور بیعت سے انکار کردے وہ حسین کا ماننے والا ہو تا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم امام عالی مقام کے اوصاف کو اجاگر کریں اور ان کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے وطن عزیز پاکستان میں نظام اسلام کے نفاذ کی کوشش کریں ۔ جو نیک لوگ اس مقصد کے حصول کے لئے کوشاں ہیں ان کا پرزور ساتھ دیں اور سب مل کر ایسی صالح قیادت منتخب کریں جو اسوہ حسینی کو زندہ و تازہ رکھے۔ حسین ہمارے دل کے اندر بھی ہونے چاہئیں اور ہمارے کردار میں بھی اُن کی جھلک نظر آئی چاہیئے۔

میں یہ کہنے میں باک محسوس نہیں کروں کہ ہمارے فلسطینی بھائی آج بھی حضرت امام حسین کی قربانی کو عملی طور پر زندہ رکھنے کی خاطر باطل کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ حسینی لشکر کی طرح قلیل اور بے سرو سامان ہیں جبکہ عالم کفر ان کے خلاف متحد ہے ۔ ان حالات کا تقاضا ہے کے عالمِ اسلام حضرت امام حسین کی زندگی اور شہادت کو بطور چیلنج سامنے رکھتے ہوئے اپنے تمام تر اختلافات کو مٹا کر اس دردِ مشترک کے صدقے یکجان ہو جائیں تاکہ یزیدی قوتیں سرنگوں ہو جائیں۔

حرف آخر کے طور پر صرف اتنا عرض کروں گی

حقیقت ابدی ہے مقام شبیری

بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی

حصہ