افلا تتفکرون

گرمی غضب کی ہے پر نعم البدل تو ہے

جلتے ہوئے فرش پر پاؤں نہ رکھ سکیں

سورج کو چند ساعت دیکھ نہ ہم سکیں

کچھ بھی کام کرنا اب تو محال ہے

ہر طرف سے پکار ہے گرمی غضب کی ہے

ہائے ہائے کی صدائیں سنتے ہیں سحر و شام

پھر بھی وہی معمول ہیں ویسے ہی ہیں ایام

کیا مرنا نہیں ہمیں ، یہاں رہنا هے سدا ؟

کیا اس ابدی گھر کی فکر نہیں؟

جہاں رہنا ہے سدا

ماہ جون کی گرمی دیتی ہے یہ درس

کچھ زاد راہ بنا لو کچھ فکر اب کرو

ابھی مہلت عمل ہے صحت ساتھ دے رہی ہے

دامن میں خیر بھر لیں ٱس حشر سے ڈریں

جو بالکل پاس ہے اب کچھ وقت نہیں

یہ چند سانسیں اور وقت کی ڈور

نکل جائے گی ہاتھ سے ریت کی طرح

حصہ