“بہت بابرکت ہے وہ ( اللہ ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے “۔(الملک)
اعدادوشمار کا ایک انبار ہے جو عالمی تنظیموں اور فلاح معاشرہ کے ضمن میں لوگ پیش کرتے ہیں. رپورٹ، فیچر، کالم، مضمون حتیٰ کہ افسانہ نگار و کہانی نویس بھی بڑھتی آبادی کو موضوع بنا کر تجاویز و آراء پیش کرتے ہیں.بڑھتی آبادی کی شرح کم کرنے کی کوششیں پوری منصوبہ بندی سے عالم پیمانے ہر جاری ہیں،گراس روٹ لیول تک کام ہو رہا یے، مانع حمل دوائیوں اور شرح پیدائش پر قابو کے طریقوں سے آگاہی اس طبقے کو بھی بہت زیادہ ہے جو بالکل ان پڑھ اور اجڈ ہے۔
حدیث میں آتا ہے : حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا ! مجھے ایک عورت ملی ہے جو عمدہ حسب اور حسن و جمال والی ہے مگر اس کے اولاد نہیں ہوتی۔ تو کیا میں اس سے شادی کر لوں؟ آپ نے فرمایا :’’ نہیں ۔“ پھر وہ دوبارہ آیا، تو آپﷺ نے منع فرما دیا۔ پھر وہ تیسری بار آیا تو آپﷺ نے فرمایا :’’ ایسی عورتوں سے شادی کرو جو بہت محبت کرنے والی اور بہت بچے جننے والی ہوں۔ بلاشبہ میں تمہاری کثرت سے دیگر امتوں پر فخر کرنے والا ہوں۔(سنن ابی داؤد)
کیا ہمارا یقین نہیں کی بادشاہ اللہ ہے اور ہر چیز ہر قدرت رکھنے والا ہے، “جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے ۔ ( تو اے دیکھنے والے ) اللہ رحمٰن کی پیدائش میں کوئی بے ضابطگی نہ دیکھے گا دوبارہ ( نظریں ڈال کر ) دیکھ لے کیا کوئی شگاف بھی نظر آ رہا ہے” ۔(الملک)
کیا جس نے آسمان بنائے وہ اپنی مخلوق کے مسائل سے لا علم ہے، کیا وہ ان کی ضرورت سے کم وسائل دیتا ہے انہیں؟ آبادی اور وسائل میں توازن کی فکر میں غرق لوگوں کو اللہ کی کائنات میں بد نظمی اور بے ترتیبی نظر آ رہی ہے کیا؟ وہ جسے،، اونگھ آتی ہے نہ نیند،، کیسے بے خبر یے کہ میری بنائی ہوئی دنیا میں آبادی بڑھ گئی ہے اور رزق کمیاب ہو گیا ہے… یقین مانیں اللہ نے یہ دنیا بنائی ہے”لییبلوکم احسن عملا” کے لئے…. بنی اسرائیل پر من و سلویٰ کیوں اتارا گیا تا کہ وہ پیٹ کی فکر سے نجات پا کر اس عظیم مقصد کے لئے فارغ ہو جائیں جس کے لئے ان سے صحرا نوردی کروائی جا رہی ہے،،، ہمارا کام وسائل تلاش کرنا ہے اسی لئے کائنات کی ہر چیز انسان کے تابع بنائی گئی، ہم نے اسے مسخر کرنا یے نا کہ اپنے نا مکمل علم کی بدولت لوگوں کو رزق کے خوف میں مبتلا کر کے اصل مقصد سے ہٹا دیں،،،، “وہ ذات جس نے تمہارے لئے زمین کو پست و مطیع کر دیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ ( پیو ) اسی کی طرف ( تمہیں ) جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے”(الملک) گویا روز قیامت کا حساب دینے کے لئے شدید تیاری کا وقت آ گیا۔
فرعون سے “ہوس اقتدار” نے بنی اسرائیل کی نسل کشی کروائی نا اور اب کے جدید عالمی ٹھیکیدار بھی ہوس اقتدار کے واسطے بہبود آبادی کا پروپیگنڈا جاری رکھے ہیں تا کہ مسلم امہ کی کثرت کو قلت میں تبدیل کیا جائے اور ان کے اذہان روٹی، کپڑے اور مکان تک محدود کر کے، مادہ ہرستی میں مبتلاء کر کے انہی بنی اسرائیل کی طرح بنادیں جن سے صحرا نوردی نہ ہو سکی جو پیٹ کو مقصد پر اہمیت دیتے تھے، جان لیجئے یہ “امت وسط” کے قیامت تک دشمن رہیں گے. اللہ کہتا ہے:
“کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا ؟پھر وہ باریک بین اور باخبربھی ہو.” (الملک)
ہمارا یقین ہے کہ زیادہ آبادی کا خالق اپنی مخلوق کی پیاس کا علم رکھتا ہے، ہمارا کام چشموں کی تلاش اور ان پر قبضہ کرنا ہے جو ہمارے تصرف میں دیئے گئے ہیں نا کہ کفر کی طاقتوں کو ان کا مالک بنایا گیا ہے.
“آپ کہہ دیجئے! کہ اچھا یہ تو بتاؤ کہ اگر تمہارے ( پینے کا ) پانی زمین میں اتر جائے تو کون ہے جو تمہارے لئے نتھرا ہوا پانی لائے؟” (الملک)
فتنہ دجل سے بچنے کی دعا کریں، یہ دجال ہی ہے جو قحط سے ڈرائے گا اور اپنی بندگی ہر مجبور کرے گا
“اگر اللہ تعالٰی اپنی روزی روک لے تو بتاؤ کون ہے جو پھر تمہیں روزی دے گا بلکہ ( کافر ) تو سرکشی اور بدکنے پر اڑ گئے ہیں ۔”(الملک)
کیا اس آیت کے ہوتے ہوئے ہمیں آبادی کے مطابق وسائل نہ ہونے کے ڈراوے میں آنا چاہئیے؟ جان لیجئے، ہمیں وسائل اور رزق کی کمی کا سامنا آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے قطعا نہ ہو گا، اپنی نا اہلی، بزدلی کی وجہ سے ہو گا۔