موبائل آن کریں، تو !
غزہ اور فلسطین کی خبریں منتظر نگاہ ہوتی ہیں
ان نوجوانوں کی خبریں ہوتی ہیں، جنہوں نے اسرائیل کی قید میں ناقابل بیان ظلم سہے
ان نوجوانوں کی، جو قید سے رہائی پانے کے بعد ہسپتالوں میں علاج کے دوران زندگی سے رہائی پا گئے
ان بوڑھوں کی جو لاشوں کی تعداد گنتے گنتے تھک چکے ہیں
ان خواتین کی تصویریں جو شدید زخمی ہیں اور پاس ان کے دودھ پیتے بچے بیٹھے ہیں
یا وہ خواتین جو بے گھر ہو چکی ہیں۔ جن کے گھر مسمار ہو چکے ہیں
جن کے شوہر نہیں رہے یا بچے نہیں رہے
یا وہ بچے جو خالی نل کے پاس پانی کی تلاش میں کھڑے ہیں
یا کھانا لینے کے لیئے بچوں کی بھیڑ میں شامل ہیں
یا خوراک کی امید میں ٹرک کے پیچھے بھاگ رہے ہیں
کچھ بچے کہہ رہے ہیں کہ ہم زندہ نہیں رہنا چاہتے کیونکہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں
کچھ کہہ رہے ہیں کہ ہم زندہ نہیں رہنا چاہتے کیونکہ ہم جنگ سے تھک گئے ہیں
کسی بچہ کی ٹانگ کٹ گئی ہے تو کسی کا بازو
کسی بچی کا ہونٹ اور جبڑا لٹک رہا ہے۔اللہ کرے اسے ایمرجنسی علاج میسر آ گیا ہو
اللہ کرے ان سب کو کھانا مل گیا ہو
سر پہ چھت مل گئی ہو
حوائج ضروریہ کے لیئے آسانی میسر آ گئی ہو
صبر آ گیا ہو
اللہ کی مدد آ گئی ہو
ایک تصویر دیکھی کہ ایک لائن میں رکھے ایک سال کی عمر تک کے بچوں کے لاشے ہیں، جو ادھ جلے ہیں اور ان کی زندگی کی معصومیت اور خوبصورتی نمایاں ہے
میں نے مکمل جلے بچوں کی تصویریں بھی دیکھی ہیں
کوئی ہے جو یہ تصویریں ہمارے صاحب اختیار لوگوں کو دکھا سکے
دکھا دے اور بتا دے کہ یہ مسلمان بچوں کی تصویریں ہیں
یہ امت محمدی کے بچوں کی تصویریں ہیں
کوئی ہمارے وزیراعظم کو دکھلا کر انہیں ان کے پوتے اور نواسے یاد کرا دے
کوئی ہمارے سپہ سالار کو جھنجھوڑ دے
کیونکہ مسلمان تو ایک جسد واحد کی طرح ہیں
میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی دکھائے یا نہ دکھائے
میں روز ایک تصویر بڑے سائز میں پرنٹ کروا کے شہر کی سب سے بڑی سڑک کے بڑے چوک میں بیٹھ جایا کروں۔
کوئی تو دیکھے گا
شاید کوئی بااختیار ہی دیکھ لے
لیکن کیا؟
یہاں کوئی با اختیار ہے ہماری ریاست میں؟
یا سب نے اختیاربیچ کر عہدے لے لیئے ہیں
یا اللہ مدد یا اللہ مدد۔