عُمَرؓ بن خطاب

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان

اسلام سے پہلے غلافِ کعبہ سے لپٹے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاوت چھپ کر سن رہے تھے تودل میں سوچنے لگے یہ شاعر ہیں ۔ نبی کریم ﷺسُورۃ الحاقہ کی تلاوت فرما رہے تھے یہ کسی شاعر کا قول نہیں۔ عمر نے پھر سوچا یہ ضرور کاہن ہیں۔ نبی کریم نے پھر تلاوت کی اور نہ کسی کاہن کا قول ھے۔ قرآن کی حقانیت اسی وقت دل میں گھر کر گئی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےدعا کی اے اللّٰہ! عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام (ابو جہل ) میں سے کسی ایک کو میرا مدد گار بنا دے۔ ہدایت ملنے نہ ملنے کا سارا فلسفہ اسی دعا سے ملتا ھے۔

دونوں کرداروں کا جائزہ صرف ہجرت حبشہ سے لیں تو عمر بن خطاب خالہ زاد بہن کے جانے پر ان کے گھر گئے تو اتنی قدآور شخصیت اپنے آنسو نہ چھپا سکی۔ دوسری طرف عمر بن ہشام ہجرت کر نے والوں کو مار نے کے درپے تھا، ان کی زمینوں پر قبضے کر رھا تھا۔

حضرت عمر ایمان لائے تو پہلی بار علی الاعلان نماز پڑھی گئی۔

حضرت عمر کی حکومت کے چند واقعات کا موجودہ جمہوری حکومت سے موازنہ کریں تو اللّٰہ کی زمین پر اللّٰہ کے نظام کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ ھوتا ھے۔

جب کسرٰی کاتاج حضرت عمر کے پاس لایا گیا تو فرمایا کیسے ایمان دار لوگ ھیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا قوم نے آپ کو پاکیزہ پایا تو پاکیزہ ہو گئی۔ آج حکمران کرپٹ ہیں تو عوام بھی کرپٹ ۔

ایک مرتبہ گورنر مصر عمرو بن العاص کے بیٹے نے ایک قبطی کو بلا قصور کوڑے مارے تو گورنر مصر کوان کے بیٹے سمیت واپس بلوالیا اور قبطی سے اتنے ہی کوڑے بیٹے کو اور دو کوڑے عمرو بن العاص کو مارنے کا حکم دیا اور فرمایا اے عمرو ! ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا تم نے کب سے ان کو غلام بنا لیا۔ آج ایک کرنل کی بیوی ناحق سرکاری اہلکاروں پر گاڑی چڑھا دیتی ھے کہ اس کی گاڑی کو کیوں روکا گیا۔

ایک گورنر سے جب بیت المال کا حساب مانگا تو اس نے کہا یہ بیت المال کا اور یہ میرے تحائف ہیں تو گورنری سے معزول کر کے بکریاں چَرانے پر لگا دیا۔ ایک دن بکریاں چرا رھے تھے حضرت عُمَرؓ پاس سے گزرے تو پوچھا کوئی تحفے آئے وہ شرمندہ ہو گئے تو فرمایا تحفے تمہاری ذات کو نہیں سرکار کو ملے اور سرکاری خزانے میں جمع کرنے ہوتے ہیں، آج کروڑوں کے سرکاری تحائف بیچ کر کھانے والے بھی خود کوصادق اور امین سمجھتے ہیں۔

ایک خاتون نےپانی ابلنے کو رکھا کہ بچے کھانا سمجھ کر بہل جائیں اور سو جا ئیں۔ ایسے میں حضرت عمر رات کو گشت پر تھے یہ صورتحال دیکھی تو بیت المال سے کھانے کا سارا سامان لا کر دیا خاتون کہنے لگی اس عمر کو تو میں قیامت میں پوچھوں گی حکمرانی کے لائق تو تم ہو حضرت عمر رونے لگے اور فرمایا شاید عمر کو آپ کے حالات کی خبر نہ ہو تو خاتون نے کہا پھر وہ حکمران کس چیز کا ہے۔ حضرت عمر نے بچوں بیواؤں بوڑھوں کے وظائف مقرر کیے جو آج بھی یورپ اور بر طانیہ میں عمر لاء کے نام سے رائج ہیں۔

آج حکمران یہ سب دیکھ رہے عوام کس طرح مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، انصاف اور قانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ حکمران زمیوں سے ٹیکس لے سکتے تھے مگر آج مسلمان اپنے ملک میں ماچس کی تیلی پر بھی ٹیکس دینے پر مجبور ہیں۔ مراعات یافتہ طبقے کی ساری مراعات، بجلی کے بل، بڑی گاڑیاں بنگلے سب غریب عوام کی جیب سے نکالی جا رھی ھیں۔ اب بھی وقت ہے عوام اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں۔ اور عہد فاروقی کو واپس لانے کی جدو جہد میں حصہ لیں۔ گاندھی نے کہا آج تم میں کوئی عمر ہو تو میں ہندوؤں کو ان کی حکمرانی میں دے دوں اور ہندستان کو الگ نہ ہونے دوں۔ آج اللّٰہ کی زمین پر اللّٰہ کا نظام لائیں تو عہد فاروقی واپس لایا جا سکتا ہے۔

جس کے افکار کو قرآن بنایا رب نے

ہم اسی مرد قلندر کو عُمَرؓ کہتے ہیں