بعض اوقات مریم بہت اداس ہوجاتی۔ اسے ایسے لگتاجیسے اس کا کوئی ہے ہی نہیں۔ وہ دکھ سے سوچتی کہ زندگی کیا ایسے ہی گزر جائے گی؟ کیا خوشی، محبت، خلوص، چاہت کی رمق میرے لئے بھی ہے؟
اس دن بھی وہ تکیلف سے بے حال ہوئے جارہی تھی۔ اس نے کرب کی شدت سےایک آہ نکالی۔ لیکن اسکی آہ سننے والا وہاں کوئی نا تھا۔ بچے بھی سوچکے تھے۔ شوہر رات کے اس پہر جبکہ 2 بج رہے تھے وہ ابھی بھی گھر نا آئے تھے۔
مریم پڑھی لکھی سمجھدار تعلیم یافتہ لڑکی تھی۔ لیکن رشتہ آیاتو معمولی لیب کلرک اور تعلیم بھی معمولی لیکن سیدھےبسادھے لوگ تھے۔ والدین نے یہی سادگی دیکھ کر رشتے پر ہاں کردی۔ لیکن یہاں اس کے لئے روز کا معمول تھا بلاوجہ روک ٹوک، طعنے، ذلت اور ہر بات پر ساس کی بدعائیں، اسکے ماں باپ کواس کے سامنے غلط تربیت دینے پر منہ بھر بھر کر برا بھلا کہنا شاید اسکی ساس نے اپنا وطیرہ بنالیا تھا۔
وہ ان سب سے تنگ آکر جب اپنے مجازی خداکی جانب دیکھتی تو وہاں سوائے خاموشی کےاپنے لیے کبھی کچھ محسوس نہ کرتی۔ یکے بعد دیگرے اولاد کی پیدائش اور اب 3 ماہ کا بچہ ضائع ہوجانے کا دکھ صرف وہی ماں جان سکتی ہے۔ جس پر خود کبھی کچھ ایسا سانحہ بیتا ہو۔ وہ جب اپنے کمزور وجود کو سمیٹے گھر آئی تو اسکی ساس کچن میں چولھے کے پاس کھڑی مسلسل کچھ بڑبڑارہی اور غصے سے اس کی جانب دیکھ رہی تھیں۔ وہ سلام کرکے کمرے میں بچوں کے پاس پہنچی ہی تھی کہ پیچھے سے ساس کمرے میں داخل ہوئی۔ کہنے لگی بات ذرا کڑوی ہے لیکن تمہیں سننی ہوگی۔ آئندہ اگر کہیں جاو تواپنے بچےاپنی ماں کے پاس چھوڑ کر جانا۔ میرے پاس اتنا فضول ٹائم نہیں کہ تیرے بچے بھی دیکھوں اور گھر کا کام کاج بھی کروں۔ تمہاری ماں کے پاس کرنے کو ہوتاہی کیا ہے سوائے عیاشی کے۔ آئندہ اگر آرام کا موڈ ہوتو پہلے بچے اور انکا سامان اپنی ماں کو دے کر جانا۔ وہ ابھی لیٹنے بھی نا پائی تھی کہ ساس کی آواز سے چھوٹا ارسل اٹھ گیا اور ماں کو دیکھ کر زور زور سے رونے لگا۔ اسنے معصوم کو کندھےسے لگایا۔ ساس کو “جی اچھا امی ” کہہ کر بچے کا دودھ بنانے لگی۔ تکلیف کی شدت سے اسکا رواں رواں چیخ رہاتھا۔ لیکن اپنی تکلیف کو کہیں پیچھے بھلا کر وہ بچوں کا کھانا بنانے کچن کی سمت گئی جہاں ساس اپنے لئے حلوہ بنارہی تھی۔ اسے دیکھ کرحلوے کی پتیلی ہاتھ میں پکڑے بڑبڑاتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔ دودن ہسپتال میں داخل رہ کر اسکو ابھی بھی اپنے جسم سے دوائیوں کی بو محسوس ہورہی تھی۔ کینولا کھینچ کر نکالا اور رستے ہوئےخون پر سنی پلاسٹ لگاکر کام میں مصروف ہوگئی۔
بچوں کو کھانا کھلاتے ہوم ورک کرواتے کرواتےرات کافی دیر ہوگئی۔ صبح کی تیاری کی بچوں کے یونیفارم تیارکرکے کتابیں کاپیاں بیگ میں رکھ کر ذرا سستانےکو گردن ٹکائے موبائل پر وقت دیکھنےلگی۔ رات کے دو بج گئے تھے۔ سمیر کا کہیں اتا پتا ہی نا تھا۔
سمیر ماں کا اکلوتا اور چار بہنوں کاواحد سہارا تھا۔ شادی کے 6 سالوں میں چار بچے اور انکے خرچے ،گھر کے خرچے وہ بہت چڑچڑا ہوگیاتھا۔ بہنیں گھر بیٹھی تھیں شادی کی عمر گزر جانے پر انکے مزاج اور رویئے عام لڑکی سے بہت مختلف ہوگئے تھے۔ ہر وقت کمرے میں بند رہتی۔ ماں اپنا ہاتھ بٹانے کو بہو لے آئی۔ بہو نسبتا کم حیثیت گھر سے لائی تاکہ گھر گھرستی آتی ہو۔ بیٹے کو لیکر الگ ہونے والی نا ہو۔ سمجھدار ہو کم میں بھی گزارا کرلے۔ مریم ان تمام باتوں پر پورا اترتی تھی۔ سو خوشی خوشی اپنے بیٹے کے ہاتھ پیلے کردیئے۔ تاکہ دن رات کمانےوالا بیٹا بھی خوش ہوجائے اور گھر کے لئے ان کو ایک عدد مددگار بھی مل جائے۔ لیکن اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے نا کرسکی ایک تو جہیز کے لئے منہ مانگے خرچے اور سسرال والوں کی ڈیمانڈ دوسرا سگھڑاپے کی کمی تیسرا منہ زور بہو کوئی نہیں لانا چاہتا۔ بس یہی سوچ کر انہوں نے اپنے بیٹے کی شادی کرنے کا سوچا تاکہ گھر میں خوشیاں آئیں باپ کے انتقال کے بعد بیٹا بالکل اکیلا رہ گیا تھا وہ بچوں کو پالتے پالتے یہ بھی بھول گئی کہ بیٹیوں کی تربیت میں کوئی کمی رہ جائے تو یہ معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا عمر کا ایک بڑا حصہ گزر جانے پر بیٹیوں کے رشتے آنا جب بند ہو گئے تو انہوں نے بیٹے سمیر کی شادی کردی۔
شادی کے بعد مسائل دوسرے قسم کے ہوگئے یکے بعد دیگرے بچوں کی پیدائش اور مناسب غذائیت نا ہونے کے سبب مریم کمزور ہوتی جارہی تھی۔ ایک دن اچانک طبیعت خراب ہونے کے سبب جب اسپتال گئی تو پتہ چلا ایک ننھا مہمان آنے سے پہلے ہی دنیا چھوڑ چکا تھا۔ وہ بہت بلک بلک کر روئی اسے پتہ ہی نا چلا۔ لیکن جو خدا کو منظور۔ مریم کی ماں کہتی ” اللہ تعالی کی حکمت کوئی نہیں جانتا بس بندے کو اللہ کی رضا میں راضی رہنا چاہیے۔ نیکی کبھی رائیگاں نہیں خاتی۔ بس تو نیکی کرتی رہ” مریم نے ماں کی باتوں کو اپنے پلے سے باندھ لیا تھا۔ وہ اپنے میکے بھی کم ہی جاتی سوچتی کیا کروں گی جاکر۔ بچےاور سامان لیکر گھر جاوں دوسرے دن ساس کا فون آجاتا شوہر کے لئے کھانا کون بنائےگا۔ میرے اندر اب ہمت نہیں رہی۔
مریم کبھی کبھی اپنی ساس کے بارے میں کھلے دل سے سوچتی تو اسے یوں محسوس ہوتاکہ سمیر کی ماں نے بھی کچھ کم مشکلات نہیں اٹھائی۔ شوہر کی وفات پھر بچوں کی پڑھائی کے اخراجات اٹھائے، معاشرے میں ایک سنگل مدر کا رہنا ہر عمر میں کس قدر مشکل اور کٹھن کام ہے، اسی وجہ سے ساس نے بیٹیوں کو بھی کبھی گھر سے باہر نکلنےتک نا دیا۔ جس کے باعث وہ آج بھی لوگوں سے بات کرتے ہوئے ہچکچاتی ہیں۔ بس ہر وقت اپنے کمروں میں رہتی۔ نا اپنے بھتجیوں اور بھتیجوں کو کمرے میں آنے دیتی نا خود انکی موجودگی میں انکے کمروں میں آتی تھیں۔ گھر کا ماحول بلکل گھٹن زدہ سا تھا۔۔۔۔ کسی سے نا ملنے کے باعث لڑکیوں کی شادی اب تک نہیں ہوئی۔ حالانکہ دونوں 3 دہائیاں گزار چکی تھیں۔۔۔۔۔پھر لڑکیوں کی شادی نا ہونے کی اذیت اٹھانا اس نے سوچا یہ معاشرہ ایک عورت کو زندہ درگور کرنا جانتاہے لیکن کسی عورت کو سہارا دے کر اسکی مدد کرنا گوارا نہیں کرتا۔ اگر میری ساس اتنی مشکلات اور مصائب کا شکار نا ہوئی ہوتی تو شاید وہ بھی بڑے اچھے مزاج کی ہوتی۔اس نے بڑی قربانیاں دی ہیں وہ سوچتی کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ اپنے بچوں کو ان تمام پریشانیوں مشکلوں سے دور رکھے گی۔ ان پر اپنے مزاج کی تلخی نا پڑنے دے گی۔ پھر ایک عمر کے بعد وہ انہیں ضرور تمام سختیوں کو جھیلنے کی تربیت دے گی۔ مریم ہمیشہ مشکل وقت میں حضرت مریم کی سیرت کا مطالعہ کرتی کہ کس طرح انہوں نے مشکل حالات میں رب کی رحمت سے ناامیدی نہیں دکھائی وہ مایوس نہیں ہوئیں۔ انہوں نے اپنی تمام قوم کی فحش و جھوٹی باتوں کا کس پامردی اور دیانتداری سے مقابلہ کیا۔ وہ بچوں کے ساتھ نرمی و شفقت کا رویہ رکھتی۔
وہ اپنے بچوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے سناتی کہ کس طرح طاغوت کی غلامی سے نکل کر حقیقی معبود کو تلاش کیا اور اسی پر اپنا سب کجھ قربان کردیا۔ اس طرح مریم کے گھر کا ماحول بھی یکسر تبدیل ہونے لگا۔
سمیر جب چند لمحات اپنے گھر میں گزارتا تو بہت سکون و راحت محسوس کرتا۔ ماں کے اتنے خراب رویئے معاشی تنگی کے باوجود اسکی بیوی کس طرح بچوں کی تربیت کررہی ہے کہ بچے صرف والدین ہی کے نہیں دادی اور پھوپھیوں کے کام بھی دوڑ دوڑ کر کرتے ہیں۔ وہ نماز کے شوقین ہیں قرآنی آیات یاد کرتے ہیں۔ دعائیں سناتے ہیں۔ بچوں کی خوشیوں میں شریک مریم کیسے اپنا آپ بھلائے بس خدمت ہی خدمت کرتی جاتی ہے۔ واقعی کسی نے سچ کہا ہے
مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار بنتاہے