کوڑا ’’کرکٹ‘‘۔

فتح و شکست کھیل کا بے شک ایک حصہ ہی سہی لیکن جس شکست میں عبرتناکیت حد سے بڑھ جائے وہاں صرف حیرت ہی نہیں ہوتی بلکہ شکوک و شبہات کے نہ جانے کتنے سوالات جنم لینے لگتے ہیں۔ یہی کچھ احوال ٹی 20 ورلڈ کپ چمپین شپ کے تحت ہونے والے میچوں میں پاکستان کی غیر متوقع شکست در شکست کا ہے۔ گوکہ پاکستان نے سپر ایٹ کے مرحلے میں 2 میچ ہارے اور 2 ہی میچ جیتے لیکن جس بری طرح ہارے اور جس انداز میں جیتے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ شاید اس قسم کی خراب ہار جیت کا ریکارڈ نہ تو پاکستان خود کبھی توڑ سکتا ہے اور نہ ہی دنیا کی کوئی بھی ٹیم اس ریکارڈ کو برابر کرنے یا توڑنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

مجھے اس سے کوئی بحث نہیں کہ پاکستان اپنا پہلا ہی میچ ایک ایسی ٹیم سے کیوں ہارا جس کی ولادت ہی اسی چپمین شپ میں ہوئی تھی۔ یہ کہیں نہیں لکھا ہوتا کہ زیادہ عمدہ کھیل پرانی تجربہ کار ٹیم ہی پیش کریگی۔ نئی ٹیمیں بھی میدان میں کھیلنے اور جیتنے کیلئے اترا کرتی ہیں۔ اس کیلئے کئی مہینوں سے تیاری کر رہی ہوتی ہیں اور تجربہ نہ ہونے کے باوجود وہ مشاہدوں کی طاقت سے بہت کچھ سیکھ چکی ہوتی ہیں۔ امریکا کی ٹیم بے شک ایک بالکل ہی نو مولود ٹیم تھی لیکن اس میں کئی کھلاڑی کافی تجربہ کار تھے۔ نئی ٹیم ہونے کی وجہ سے ان میں جوش و ولولا بھی دیگر تجربہ کار ٹیموں سے کہیں زیادہ تھا اس لئے میں یہ کبھی نہیں کہونگا کہ پاکستان کی نہایت تجربہ کار ٹیم امریکی ٹیم سے کیوں ہار گئی۔ قابلِ افسوس اگر کوئی بات ہے تو یہ ہے پاکستان ایک نو مولود ٹیم کے سامنے رنوں کا پہاڑ کیوں کھڑا نہیں کر سکا۔ یہ تو تھی کسی حد تک بلے بازوں کی ناقص کارکردگی، لیکن اس ناقص کارکردگی کے فوراً بعد ہماری بالنگ لائن نے بھی وہ کار کردگی نہیں دکھائی جیسا دنیا اور خاص کر پاکستانی عوام توقع لگائے بیٹھے تھے اور یوں ایک نو مولود ٹیم نے پاکستان کو پہلی شکست تو یوں دی کہ 159 رنز کے جواب میں 159 ہی رنز بنا کر میچ ٹائی کر دیا۔ تقدیر نے پاکستان کو 6 گیندوں کا ایک موقع اور دیا تا کہ شرم ناک فتح ہی سہی، اس کو حاصل کر سکے لیکن نہایت ناقص کار کردگی دکھا کر ان 6 گیندوں میں بھی ایک ہی میچ کو 2 مرتبہ ہار کر دنیا کے اور پاکستانی عوام کے دماغ کی چولھیں ہلا کر رکھ دیں۔

پاکستان نے اپنے چار میچوں میں بے شک 2 ہارے اور 2 جیتے لیکن اگر تجزیہ کیا جائے تو جو ہارے وہ بہت ہی بری طرح ہارے اور جو 2 میچ جیتے وہ بھی نہایت شرم ناک طریقے سے جیتے۔ باالفاظِ دیگر اس پر جتنی بھی تنقید کی جائے وہ کم ہے۔ پہلا میچ امریکا سے دو مرتبہ ہارنے کے بعد بھارت سے اس طرح ہارے جیسے یہ پاکستان کی نہیں نیپال یا کسی اور غیر معروف ملک کی ٹیم ہو۔ اگر ہمارے کرکٹ کے کنگ، وزیر اعظم اور سپہ سالار 122 رنز کو حاصل نہیں کر سکتے تھے تو پھر ایک چانس مجھ جیسے سن رسیدہ لوگوں ہی دے دیا جاتا کہ ہار جانا کوئی اتنا مشکل فن بھی نہیں۔ کم از کم پوتا پوٹیوں، نواسہ نواسیوں کی قسمت تو جاگ ہی جاتی، ساتھ ہی ساتھ دنیا جیتنے والوں کو طعنے دیتی کہ بد بختو بزرگوں کی بزرگی کا ہی احترام کر لیا ہوتا۔

رہے وہ میچ جو پاکستان نے جیتے وہ ہار سے بھی کہیں زیادہ باعثِ شرمندگی و خجالت ہیں۔ کہیں 103 کے اسکور کو پورا کرنے اور کہیں 107 کا ہدف حاصل کرنے میں بھی ایسا لگ رہا تھا جیسے 200 سے 300 رنز کا ہدف ان کے سامنے ہو، وہ جیت جو ان کو 12 سے 14 اوورز میں بغیر کوئی وکٹ گنوائے حاصل کر لینی چاہیے تھی وہ 13 گیندیں اور کوئی آٹھ گیندیں پہلے حاصل ہوئی اور وہ بھی بصد مشکل۔ بصد مشکل یوں کہ اتنے کم اسکور کو بھی حاصل کرنے کیلئے کسی میں 7 اور کسی میں 8 وکٹیں گنوانی پڑیں۔ دونوں شرم ناک طریقے سے جیتے ہوئے میچوں میں آخر تک ایسا ہی لگتا رہا کہ جیسے یہ میچ بھی پاکستان کے ہاتھ سے جیسے نکل رہے ہوں لیکن اللہ تعالیٰ نے بالکل ہی برباد ہوجانے والی عزت کی عزت رکھ لی۔ پاکستان کا سپر ایٹ کے سلسلے میں کھیلا گیا آخری میچ تو پاکستان نے حادثاتی طور پر جیت لیا، لیکن آخری مرحلے میں جب پاکستان کی 8 وکٹیں گر چکی تھیں اور قابلِ اعتماد بیٹر، کرکٹ کے کنگ، ٹیم کے کپتان بابر اعظم کریز پر موجود تھے تو سب سے زیادہ حیرت اس بات پر تھی کہ ان کو اس نازک موقع پر جتنی بھی گیندیں ملیں ان میں سے اکثر “ڈاٹ” کھیلیں یا سنگل سنگل رنز بنائے۔ لگتا تھا کہ ان کو پاکستان کو جتانے کا شاید کوئی ارادہ نہیں۔ اگر ایسے موقع پر نویں نمبر پر آنے والے شاہین آفریدی نے چھکوں کی برسات نہ کردی ہوتی تو میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کسی قیمت پر اس میچ کو نہیں جیت سکتا تھا۔

اک کپتان جو میچ کو شروع سے لے کر چلا ہو، میچ کے آخری اورز ہی نہیں آخری آخری گیندیں چل رہی ہوں، کپتان کریز میں موجود ہو لیکن اس کے باوجود بھی اس کی جانب سے کسی بھی لمحے کوئی ایسا تاثر نہ مل رہا ہو کہ اسے اس صورتِ حال میں کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی کا سامنا ہے، اگر اس کے متعلق کوئی بھی مبصر یا فتنہ پرور الزام تراشی کرنا شروع کردے تو اس کا دفاع کرنا یقیناً بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ آج کل جن باتوں اور الزام تراشیوں کا سامنا پوری ٹیم اور خصوصاً کپتان بابر اعظم کو کرنا پڑ رہا ہے وہ یقیناً ٹیم اور کپتان کیلئے سخت مرحلہ سہی لیکن دنیا کی کوئی بھی مشہور اور ون یا ٹو یا تھری پر رہنے والی ٹیم ایسی ہی کارکردگی دکھائے گی جیسی کارکردگی پاکستان نے دکھائی ہے تو اسے دنیا اور اپنے ملک کے سامنے ایسی ہی الزام ترشیوں کا سامنا تو کرنا ہی پڑے گا لہٰذا یہی سوچ کر ڈھیٹ بن جانے میں بھی کوئی خاص حرج نہیں کہ پاکستان کے عوام “مٹی پاؤ” کہہ کر ہر بات بھول جانے کے سخت عادی ہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔