کائنات میں ہر لحظہ ارتقاء کا عمل جاری ہے۔ ہر صبح جب طلوع ہوتی ہے تو اپنے جلوؤں میں ترقی کا ایک نیا پیغام لے کر آتی ہے اور ہر شام جب کائنات کی فضا پر چھانے لگتی ہے تو کسی نئی حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہے۔ ترقی کا یہ سفر جیسے زندگی کے دوسرے تمام شعبوں میں جاری و ساری ہے، بالکل اسی طرح ذرائع ابلاغ (میڈیا) کے میدان میں بھی پوری آب و تاب اور برق رفتاری سے بڑھ رہا ہے۔ پتھروں پر علامات، نشانات، تصاویر سے شروع ہونے والا یہ سفر ریڈیو، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر سے ہوتا ہوا موبائل اور اینڈرائڈ کی دنیا میں قدم رکھ چکا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں خصوصاً فیس بک، واٹس ایپ، ٹویٹر، انسٹاگرام اور سوشل بلاگز سر فہرست ہیں۔ جہاں دنیا بھر کے لوگ ہر لمحہ معلوماتِ عامہ کا تبادلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ آج کا جدید دور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ ان وسائل و ذرائع سے لوگوں کو ایک ڈگر مل گئی ہے، جس کی بدولت ہم اپنے دین اور اپنی قوم کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں یہ ایک بہتا ہوا سمندر ہے، جس میں ہیرے اور موتی بھی ڈالے جاتے ہیں اور خس و خاشاک بھی۔
اس سے دینی، اخلاقی اور تعلیمی و تربیتی نقطۂ نظر سے مفید چیزیں بھی پہنچائی جا سکتی ہیں اور انسانی و اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے والی چیزیں بھی۔ اس کا اثر اتنا وسیع ہو چکا ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا استعمال اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کی ترویج و اشاعت میں الیکٹرانک بالخصوص سوشل میڈیا کے کردار سے کسی صورت انکار ممکن نہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس ذریعۂ ابلاغ کو اسلام کی دعوت و تبلیغ اور عوام الناس کو صحیح اور غلط کی پہچان، حق و باطل میں فرق کرنے کی تمیز سکھانے کے لیے علمائے کرام کا میڈیا پر آنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔
شر پسند عناصر اور شیطان فطرت لوگ سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ جن کا مقصد تعمیر و ترقی نہیں بلکہ فتنہ انگیزی، تفرقہ بازی اور معاشرے میں عدم استحکام کو بڑھاوا دینا ہے۔ بالخصوص نوجوان نسل کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے، وہ نوجوان جو ہر مسئلے کے حل کے لیے اپنے اساتذہ، علماء کرام اور اولیاء اللہ سے مشاورت کی بجائے الیکٹرانک میڈیا کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے الیکٹرانک میڈیا کے ہر فورم پر اسلام کی حقیقی تعلیمات کا میسر ہونا ازحد ضروری ہو گیا ہے۔ تاکہ نہ صرف ہماری نوجوان نسل اور مسلم عوام بلکہ غیر مسلم بھی اسلام کی عالمگیریت اور آفاقیت سے متعارف ہو سکیں۔ الیکٹرانک میڈیا تو دعوتِ اسلام کو تیز ترین طریقے سے بڑے پیمانے پر پھیلانے کے لیے ایک ہتھیار ہے۔ اگر یہ میدان ملحدین اور قادیانیت کے فروغ، غامدی کے چیلوں اور نیم دینی علم رکھنے والوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا تو حالات اس سے بھی بدتر ہوں گے جو آج ہمیں نظر آرہے ہیں۔ آج میڈیا کو ایسے طلباء اور علمائے کرام کی ضرورت ہے جو نظریاتی حدود کا خیال رکھ سکتے ہوں، جو معاشرتی تبدیلیوں کی دینی لحاظ سے درست سمت کا تعین کر سکتے ہوں۔ حالات حاضرہ کو دینی نقطۂ نظر سے زیر بحث لانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ علمائے کرام کے بارے میں جو ایک عام تاثر پایا جاتا ہے وہ بھی دور ہو جائے گا کہ یہ وقت کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے۔
اس طویل گفتگو کے بعد ہمارا ماننا تو یہی ہے کہ:
پوری دنیا کا میڈیا اسلامی نظام زندگی اور اسلام کی تعلیمات کو بدنام کرنے کے لیے اور پروپیگنڈا کرنے کے لیے برسر پیکار ہے، اور اپنی بھرپور توانائیوں کے ساتھ مصروف عمل ہے، اس لیے علمائے کرام کو الیکٹرانک میڈیا میں قدم جمانے کی ضرورت ہے۔ شرعی حدود و قیود کے دائرے میں رہتے ہوئے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر علمائے کرام کو سرگرم ہونا چاہیے اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کا دفاع ضرور کرنا چاہیے۔ شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے علمائے کرام کو ہر وہ ذرائع استعمال کرنے چاہیئں کہ جو اسلام کی سربلندی اور تعلیمات کو فروغ دینے کا باعث ہوں۔ الیکٹرانک میڈیا پر نیم دینی علم رکھنے والے لوگوں کے مقابلے میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو قرآن، حدیث اور فقہ کے علوم میں پختگی رکھتے ہوں۔ الیکٹرانک میڈیا کے پلیٹ فارم پر آئے دن نئے موٹیویشنل اسپیکرز، اینکرز اور پوڈ کاسٹرز آ کھڑے ہوتے ہیں، اور اپنی کم علمی کی وجہ سے عوام الناس کو گمراہی میں دھکیلنے کا باعث بنتے ہیں اس کے تریاق کے لیے علمائے کرام کا الیکٹرانک میڈیا پلیٹ فارمز پر آنا اور دلائل کے ساتھ پختہ علمی گفتگو کرنا عوام کے شک و شبہات کو دور کرنے اور ان کی ہدایت کا باعث ہوگا۔ ان شاء اللہ