جب سے سوشل میڈیا اور خاص طور پر فیس بک پر لکھنے کی آزادی کیا میسر آئی ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے بندر کے ہاتھ میں استرا آگیا ہو، شتر بے مہار کی طرح جس کا جو دل چاہتا ہے لکھ بیٹھتا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اکثر لوگ ان اوٹ پٹانگ کہانیوں پر یقین کرکے لائک اور شیئر بھی کرتے رہتے ہیں۔
اب کراچی کے ایک نئے لیکن بہترین سرکاری اسپتال “سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونیٹولوجی SICHN” میں پاکستان کے پہلے “شرعی اصولوں پر مبنی” ہیومن ملک بینک کا افتتاح کیا ہوا چند لوگوں نے اسے کفر و اسلام کا معرکہ بنا کر وہ دھول اڑائی ہے کہ خدا کی پناہ۔
سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونیٹولوجی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر جمال رضا ہیں، وہ ایک معروف چائلڈ اسپیشلسٹ اور انتظامی سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوش گفتار، نرم مزاج اور شاعرانہ مزاج رکھنے والے انسان ہیں، ایسا شخص زُودحِس بھی ہوتا ہے، اس لیے نوزائیدہ بچوں سے محبت رکھتے ہیں اور پاکستان میں نوزائدہ بچوں کی بڑھتی ہوئی شرح اموات پر فکر مند بھی رہتے ہیں۔
برسبیل تذکرہ، پاکستان میں نوزائدہ بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار میں سے 41 بچے پیدائش کے پہلے مہینے میں جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں نوزائدہ بچوں کی ہلاکت کی سب سے بڑی وجہ ان کی وقت سے پہلے پیدائش اور پیدائش کے وقت انتہائی کم وزن ہونا ہے، ایسے اکثر بچوں کو ماؤں سے جدا کر کے نرسریوں میں رکھا جاتا ہے، جہاں انہیں ماں کا دودھ کم کم ہی میسر اتا ہے، ان میں سے کئی ایسے بھی بد نصیب ہوتے ہیں جن کی مائیں پیدائش کے وقت ہی اگلے جہان سدھار جاتی ہیں اور وہ پہلے اسپتال کے عملے اور بعد میں اپنے عزیز و اقارب کے رحم و کرم پر رہ جاتے ہیں۔
اب آجائیے ماں کے دودھ کی افادیت پر، پاکستان میں صرف 48 فیصد ( یہ شرح بھی مبالغہ آرائی ہی لگتی ہے) مائیں پیدائش کے چھ مہینے تک بچوں کو صرف اپنا دودھ پلاتی ہیں، اکثریت اپنے بچوں کو “بریسٹ ملک سبسٹیٹیوٹ” یعنی ڈبے کا دودھ پلاتی ہیں، جو کہ ماہرین کے مطابق بچوں میں غذائی کمی اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔
اچھا وہ کیسے؟
ماہرین صحت کہتے ہیں کہ ماں کا دودھ بچے کے لیے نہ صرف ایک مکمل غذا ہے بلکہ یہ دودھ بچے کو ماں سے ایسی اینٹی باڈیز بھی مہیا کرتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے اندر بیماریوں سے لڑنے کی قوت پیدا ہوتی ہے اور وہ بچہ کئی بیماریوں بشمول ڈائریا اور نمونیا سے محفوظ رہتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب ڈبے کا دودھ پینے والے بچے نہ صرف ضروری غذائیت سے محروم ہو کر کمزور قوت مدافعت کے حامل ہوتے ہیں بلکہ ان میں ڈائریا، نمونیہ اور دیگر انفیکشنز کے چانسز بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر بیمار ہو کر زندگی کے پہلے سال یا اگلے پانچ سالوں میں جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
لیکن ان سب باتوں کا ہیومن ملک بینک سے کیا تعلق ہے؟
جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا کراچی میں پیدا ہونے والے سیکڑوں بلکہ ہزاروں بچے پیدائش کے وقت کم وزن کے حامل ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر کی مائیں مختلف وجوہات کی بنا پر انہیں اپنا دودھ پلانے سے قاصر ہوتی ہیں، ایسے بچوں کے لیے دنیا بھر میں ہیومن ملک بینک قائم کیے گئے ہیں، جہاں دودھ پلانے والی خواتین اپنا دودھ ڈونیٹ یا عطیہ کرتی ہیں، اس دودھ کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق محفوظ کیا جاتا ہے اور ایسے بچوں کو فراہم کیا جاتا ہے جن کو ان کی ماں کا دودھ میسر نہیں آتا۔
پروفیسر جمال رضا کے مطابق ان کے انسٹیٹیوٹ میں قائم ہونے والا ہیومن ملک بینک شرعی اصولوں کے مطابق کام کرے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بچے کو دیے جانے والے دودھ کا ریکارڈ رکھا جائے گا، اور بچے کے والدین یا عزیز و اقارب کو اسپتال سے ڈسچارج ہونے پر اس کی رضاعی ماں کے حوالے سے تمام تفصیلات فراہم کی جائیں گی۔ اسی طریقے سے رضاعی ماں کو بھی یہ بتایا جائے گا کہ اس کا دودھ کس بچے کی جان بچانے کے لیے استعمال ہوا ہے تاکہ آنے والے وقتوں میں رشتوں کا تقدس بحال رہ سکے۔
اب آتے ہیں ان بندروں کی طرف جن کے ہاتھوں میں سوشل میڈیا کا استرا آگیا ہے اور جن کا کہنا ہے کہ یہ ہیومن ملک بینک دراصل “بےحیائی کا طوفان” لے کر آئے گا، رشتوں کا تقدس ختم ہو جائے گا، رضاعی بھائی بہنوں میں شادیاں ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔
ظریف لکھنؤی سے معذرت کے ساتھ، وہ انہی لوگوں کے لیے کہہ گئے ہیں
ان عقل کےاندھوں کو الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلی نظر آتا ہے
خدا کے بندو ذرا سوچو، کچھ تو عقل سے کام لو، ہیومن ملک بینک قائم کرنے والے بھی تمہاری طرح بلکہ شاید تم سے بھی بہتر ہیں مسلمان ہوں گے کیونکہ وہ روزانہ کئی انسانی جانیں بچا رہے ہیں اور ان پر اس طرح کے بے سروپا الزام لگانا انتہائی جہالت نہیں تو اور کیا ہے؟
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونیٹولوجی کے اقدامات کی وجہ سے جناح اسپتال میں قائم نرسری میں نومولود اور نوزائدہ بچوں کی شرح اموات 41/1000 سے کم ہو کر 9/1000 تک اگئی ہے اور اگر اس انسٹیٹیوٹ نے اپنا کام جاری رکھا تو اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک بھر میں نوزائدہ بچوں کی شرح اموات میں بہت حد تک کمی لائی جا سکے گی۔
انسانی جان بچانے والے اداروں کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کرنے والوں کو سورہ المائدہ کی اس آیت کو بار بار پڑھنا چاہیے
“اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (تورات میں) یہ بات لکھ دی تھی کہ جس کسی نے کسی انسان کو قتل کیا بغیر کسی قتل کے قصاص کے یا بغیر زمین میں فساد پھیلانے (کے جرم کی سزا) کے گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے اس (کسی ایک انسان) کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری نوع انسانی کو زندہ کردیا اور ان کے پاس ہمارے رسول آئے واضح نشانیاں لے کر لیکن اس کے باوجود ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں زیادتیاں کرتے پھر رہے ہیں” المائدہ 32۔