ہمارا بکرا آج بھی نہیں آیا ۔ ہمارا بکرا کب آئے گا ابو جان؟ اب تو ہمارے ارد گرد اتنے لوگوں نے بکرے خرید لیے ہیں۔” نو سالہ مصور ابو جان کا روز منتظر ہوتا تھا ۔ ان کے گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے سوال کیا۔
“اس دفعہ ہم قربانی نہیں کر سکتے۔” ابو جان نے بالآخر بتا ہی دیا ۔
“کیوں؟” مصور کا چہرہ لٹک گیا۔ باقی سب کے چہروں پر بھی مایوسی چھا گئی۔
“اس دفعہ حالات اتنےنازک ہیں کہ کسی صورت گنجائش نہیں بن رہی۔ دکان میں کپڑوں کا کام گزارے لائق چل رہا ہے۔” ابو جان نے افسردہ لہجے میں کہا؛
بچے بڑے سب پریشان ہو گئے تھے۔ ان کے دلوں میں اداسی چھا گئی تھی۔ ہر سال قربانی کرنے والے اس سال مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہوکر رہ گئے تھے۔
تینوں بھائی علیحدہ ہو کر آپس میں صلاح مشورہ کرنے لگے۔ ان کی کھسر پھسر جاری تھی۔ یہ دیکھ کر ان کے والد نے انہیں بلالیا۔
“ہاں بھئی بچو! آپس میں کیا مشورے کر رہے ہو؟”
تینوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ گفتگو ہوئی۔ پھر بڑے بیٹے نے جھجھکتے ہوئے زبان کھولی۔
“ابو جان! ہم سوچ رہے ہیں کہ قربانی کا جانور خریدنے کے لیے ہم تینوں بھائی کچھ دن کھیتوں میں دیہاڑی کر لیں۔ آج کل مکئی کا سیزن ہے تو مکئی کی کٹائی اور چھلائی وغیرہ کا کام کرلیں گے۔” بیس سالہ واصف نے اپنے خیالات کو زبان دی تو ابو جان کو حیرت نے گھیر لیا۔
“ایک ایکڑ (8 کنال) مکئی کی دیہاڑی تقریباً تیرہ چودہ ہزار روپے ہے۔ ہم احمد صاحب (مقامی زمین دار) کے لیے تین ایکڑ مکئی کا کام کریں گے تو چند روز میں لگ بھگ چالیس ہزار روپے کما لیں گے۔ بھائی جان نے ان سے ابتدائی طور پر ساری باتیں پوچھ لی ہیں۔” تیرہ سالہ آصف نے مزید بتایا۔
“پھر پیسے ملنے پر ہم قربانی کے لیے پیارا سا بکرا خرید لیں گے ان شاءاللہ۔” مصور نے اپنی ذہنی سطح کے مطابق بات کی۔
ابو جان حیران رہ گئے۔ اپنے برگر بچوں کے اس پلان پر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ امی جان بھی انگشت بدنداں رہ گئیں۔ انہوں نے پہلے انہیں منع کرنا چاہا مگر پھر کچھ سوچ کر خاموش ہوگئی۔ حالات بھی ایسے تھے کہ قربانی کے لیے کوئی سبیل نہ بن رہی تھی۔
“میں نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میرے یہ نازوں پلے بچے قربانی کے خاطر کھیتی کی کٹائی کا مشکل اور کٹھن کام کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔” ابو جان کو ان کا جذبہ دیکھ کر ناقابل بیان خوشی ہو رہی تھی۔
“میں بھی آپ سب کے ساتھ اس کام کے لیے جایا کروں گا۔” ابو جان نے بھی لمحوں میں ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔
ابو جان کی بات سے ان تینوں کے حوصلے کو کافی تقویت ملی تھی۔
“ٹھیک ہے۔ پھر ہم کل ہی کام کا آغاز کر دیتے ہیں۔” واصف نے کہا۔
اگلے دن ابو جان نے پہلے زمین دار سے طے شدہ معاملے کے بارے میں بات چیت کی۔ پھر انہوں نے اور تینوں لڑکوں نے کام شروع کر دیا۔ مکئی کاٹنے اور چھیلنے کا کام اتنا آسان نہ تھا جتنا وہ سمجھ رہے تھے۔
سخت محنت و مشقت کے علاوہ شدید ترین گرمی اور آگ برساتے سورج کی وجہ سے یہ کام بہت مشکل تھا۔
پہلے دن ان کے سانس پھول گئے تھے۔ پسینہ چوٹی تا ایڑھی تک پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ مکئی کاٹتے اور چھیلتے ہوئے ان کے ہاتھ زخمی ہو چکے تھے۔ کام کی اسپیڈ بھی کم تھی۔ لیکن وہ خوش تھے۔
“یہ کام کرتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنا بکرا چرا رہا ہوں۔ اور اسے کھلانے کے لیے مکئی چھیل رہا ہوں اور پھر اسے پتے کھلاؤں گا۔” مصور نے کہا۔
“مجھے زیادہ ثواب ملے گا کیوں کہ میں تو بکرے کا گوشت کھاتا بھی نہیں ہوں۔” آصف نے کہا۔
“مجھے بھی ثواب ملے گا کیونکہ میں کپڑوں کی ٹھنڈی دکان سے اٹھ کر پنکھے کے نیچے بیٹھ کر کپڑے بیچنے کا کام چھوڑ کر یہاں تپتی دھوپ میں پورا دن لگا کر مکئی چھیلنے کا مشکل کام کر رہا ہوں ۔” واصف نے بھی اپنی قربانی کا احساس دلایا۔
“ہم دونوں اسکول سے چھٹیاں کرکے یہ کام کر رہے ہیں۔ اسکول میں ہم بھی سارا وقت پنکھے کے نیچے گزارتے تھے۔” دونوں طالب علموں نے بھی اپنی کارکردگی جتائی۔
“بچو! آپ فکر نہ کرو۔ میں نے آپ کے اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب سے چھٹیاں لے لی تھیں۔” مکئی کا ایک نرم اور خوبصورت سا سٹہ جلدی جلدی چھیلتے ہوئے ابو جان نے اپنے ہاتھ قدرے روک کر انہیں بتایا۔
انہیں کہاں اتنی مشقت کی عادت تھی۔ اس طرح کے کام تو انہوں نے کبھی زندگی میں دیکھے بھی نہیں تھے۔ بلکہ ان کے پورے خاندان برادری میں کسی نے کبھی ایسے کام نہیں کیے تھے۔
دو تین دن بعد چھوٹے مصور کو جسم میں خارش اور الرجی شروع ہو گئی۔ اس کے ہاتھ زخمی اور لاتعداد خراشوں والے تھے۔ باقی سب کے ہاتھوں میں بھی زخم تھے۔ روز رات کو سونے سے پہلے وہ زخموں پر مرہم لگا کر سوتے تھے۔
صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد وہ دیہاڑی کے لیے روانہ ہو جاتے تھے۔ اور تقریباً دس بجے تک کام کرکے واپس آجاتے تھے۔ پھر شام کو عصر کی نماز پڑھ کر جاتے تھے اور عشاء تک گھر آتے تھے۔
عید سے دو تین دن پہلے ابو جان نے کسی سے کچھ رقم ادھار لی اور اپنے پیسے ملا کر قربانی کا مناسب سا جانور خرید لیا۔
سب بہت خوش تھے کہ انہوں نے نیک نیتی، بھرپور کوشش اور صحیح روح کے ساتھ محنت و مشقت کرکے، ایک نیا کام، نیا تجربہ کرکے قربانی کا جانور خرید لیا ہے۔ اور ایک بظاہر ناممکن کام کو ممکن بنا دیا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو نہ قربانی کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون، بلکہ اسے دلوں کا تقویٰ پہنچتا ہے۔