قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ،،،، قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔۔۔۔ ترجمہ؛ کہہ دیجیۓ بے شک میری نماز میری قربانی میرا جینا میرا مرنا رب العالمین کے لیے ہے۔ (سورہ انعام 162)۔
قربانی کیا ہے؟ قربانی ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے قرآن حکیم کے مطابق کسی حلال جانور کو اللہ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا قربانی ہے۔ قربانی کا یہ سلسلہ ہر نبی کے دور میں کسی نہ کسی صورت جاری رہاہے۔ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی ہی آزمائش میں گزری جس میں وہ سرخرو ہوئے اور اللہ نے انھیں اپنا خلیل (دوست )بنا لیا۔
انسان پر سب سے بڑی آزمائش تب آتی ہے جب اس کی اولاد مشکل میں ہو لہٰذا جب رب تعالی کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنے شیر خوار بچے اسماعیل کو ان کی والدہ ہاجرہ کے ہمراہ حجاز مقدس کی بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ جاؤ تو آپ نے بلا چوں وچرا حکم ربی کی تعمیل کی اور جب وہی بچہ بڑا ہو کر دوڑ دھوپ کے قابل ہوا تو باری تعالیٰ کا حکم آگیا کہ اب اس کو میری راہ میں قربان کر دو۔ آپ اس آزمائش میں بھی پورے اترے اور رب کے حکم پر سر تسلیم خم کرنے کے لئے لختِ جگر کو قربان کرنے کے لئے لٹا دیا۔ اللہ کو تو صرف اپنےبندے کا امتحان مقصود تھا لہذا فورآ حضرت اسماعیل کی جگہ قربانی کے لئے ایک مینڈھا بھیج دیا جس کو حضرت ابرہیم نے زبح فرما دیا ۔ رب العالمین کواپنے فرمانبردار بندے کی ادا اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک آپ کے اس عمل کو عید الاضحیٰ کی صورت میں امر کردیا۔ ذوالحج کے مہینے میں 10، 11 اور 12 تاریخ کو دنیا کے تمام صاحب استطاعت مسلمان جانور کی قربانی کر کے سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہیں۔
قربانی کی اصل روح اخلاص ہے یعنی نمود و نمائش اور ریاکاری سے بچتے ہوئے خالصتاً اللہ کی خوشنودی اور قرب حاصل کرنے کے لیے جانور کو قربان کرنا اوراللّہ کی کبریائی اور توحید کا پرچار کرنا۔ قربانی دراصل اس بات کی یاد دھانی ہے کہ اگر اللہ کی راہ میں اپنی پسندیدہ چیزوں کے علاوہ جان کی قربانی بھی دینی پڑی تو بندہ مومن شاداں و فرحان ہمہ وقت اس کے لئے تیار ہے۔ اس کی بہترین مثال فلسطینی مسلمانوں کی ہے۔ اکتوبر2023 سے اہل غزہ جس آزمائش اور کرب سے گزر رہے ہیں اب خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ہر کوئی اس سے واقف ہیں۔
اب تک تقریبا 40 ہزار افراد اللہ کی راہ میں اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں، ہزاروں زخمیوں نے اپنے اعضاء کی قربانی دی، ہزاروں لوگوں نےاپنے مال و متاع قربان کیے ہیں لیکن اب بھی ان کے لبوں پر ایک ہی صدا ہے،،لا الہ الااللہ،، آفرین ہے غزہ کی ماؤں کوجو اپنے جگر گوشوں کو اپنے ہاتھوں سے اپنی گود سے قبر کی گود کے سپرد کر رہی ہیں اور سلام ہے ان باپوں کو جو اپنے نوجوانوں کا لاشہ دفنا رہے ہیں۔ بارود کی بو فضا میں رچی بسی ہے، گھر ملبے کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں، مسجدیں شہید ہو چکی ہیں مگر پھر بھی وہاں ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا گونج رہی ہے جو کہ قربانی کی اصل روح ہے۔
اس سال بھی دنیا کے کونے کونے میں مسلمان سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کریں گے مگر اہل غزہ جنہوں نے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا ہے اب ان کے پاس اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے کچھ نہیں بچا، ان کے پاس کھانے کا سامان ہےنا پینے کے لئے پانی، سونے کے لئے بستر ہےنا علاج کے لئے دوائیں۔ بلکہ وہ صاحب نصاب لوگ جو کئی جانوروں کی قربانی کیا کرتے تھے آج خود گوشت کے منتظر ہیں لیکن حرف شکایت کے بجائے ان کی زبان کلمہ شکر سے تر ہے. وہ سب رب کی رضا میں راضی ہیں۔ شہید تو جنت میں پہنچ گئے۔ لیکن جو اسرائیلی مظالم کے سامنے صبر و استقامت کی دیوار بنے ڈٹے ہوئے ہیں انہوں نے رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کے لئے سابقون الاولون کی مثال قائم کردی ہے۔
اللہ کریم تمام امت مسلمہ (بشمول مسلم حکمرانوں) کے اندر بھی یہی جذبہ بیدار کر دے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی