قائدین کی سیل اور ہماری مرضی

انیس سو ننانوے میں بی بی سی کے ایک انٹرویو کے دوران نیلسن منڈیلا سے پوچھا گیا کہ سیاست دان اور لیڈر میں کیا فرق ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ سیاست دان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے اور لیڈر آئیندہ نسل کا۔

بچپن سے ہم ایک انگریزی محاورہ پڑھتے آرہے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ برائی کا خاتمہ ابتدا میں ہی کر دینا چاہیے، دیکھنے اور پڑھنے میں یہ بہت عجیب سا محسوس ہوتا ہے لیکن عملی زندگی میں دیکھیں تو اس ضرب المثل کی اہمیت مسلم ہے۔ ہمارے ملک میں تو چھوڑیں دنیا بھر میں ابتری کی جو حالت ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے کبھی برائی کو ابتدا میں اور اس کی جڑ سے ختم ہی نہیں کیا۔ ہمارے سیاسی نظام میں جو بھی کوتاہیاں ہوئیں انہیں نظریہ ضرورت کے تحت اپنا لیا گیا۔

خواہ وہ کسی فوجی جرنیل کے اقتدار کا دوام ہو یا اسلام کے نام پر سیاست۔ وراثتی سیاست ہو یا انتخابات میں دھاندلی اور چور بازاری سب کو جو اور جیسا ہے کی بنیاد پر قبول کر لیا گیا کہ آج یہ معاشرے اور ممالک کا حصہ محسوس ہونے لگی ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی بھی اقتدار میں آ جائے عوام کی شنوائی نہیں ہوتی۔ عوامی خوشحالی کے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ عوام ہی اس ظاہری ترقی کے ثمرات سے مستفید ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔

برائی کے بارے میں اگر بات کریں تو یہ ایک آکاس بیل کی طرح ہوتی ہے جو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ ہمارے سیاسی نظام کو اسی اقربا پروری، رشوت اور بے ایمانی نے یرغمال بنا لیا ہے۔ یہ تمام برائیاں آکاس بیل کی طرح بڑھ رہی ہیں۔ نئے پاکستان کے نعرے، انقلاب، تبدیلی، قرض اتارو ملک سنوارو جیسے کھوکھلے اقدامات سے ملک نہیں بنتے۔

ہمارے ہاں قائدین کی ایک سیل لگی ہوئی ہے بھانت بھانت کے سیاستدان تو ضرور ہیں لیکن عوامی منشا کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایک قوم کی تشکیل کے لئے سب کو مل کر کام کرنا چاہیے جب بھی عید قربان آتی ہے مجھے مویشی منڈیوں میں جانوروں کو دیکھ کر یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ بدعنوان حکومتیں اور بے ضمیر قائدین عوام الناس کو مویشی ہی تصور کرتے ہیں نہ زندگی کی بنیادی سہولیات دی جاتی ہیں دن بدن مہنگائی میں اضافہ کر دیا جاتا ہے جس سے عام آدمی کی رہی سہی ہمت بھی ختم ہونے لگتی ہے۔

عوام پر ظلم و ستم، لاقانونیت، بے انصافی، مہنگائی اور بدعنوانی کی چھری روز پھیر دی جاتی ہے اور وہ فریاد بھی نہیں کر سکتے۔ جمہوریت عوام کی حکمرانی کا نام ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام کو بھی باشعور بنایا جائے عوام اپنی رائے کا کھل کر اظہارکر سکیں  اور اپنے لئے بہترین قائدین کا انتخاب کریں۔

اگرچہ کہ اچھائی برائی ہر کسی میں پائی جاتی ہے لیکن درست قائدین  کا انتخاب عوام کو مسائل کے منجدھار سے نکلنے میں مدد دیتا ہے۔