لہو رنگ کراچی

دل غم سے چور ہے… کیا لکھوں؟ کتنا لکھوں؟ کس کس کو لکھوں؟ کراچی کا ایک اور قابل سپوت خون میں نہلا دیا گیا ۔۔۔اے ارباب اختیار! کیا تمہارے سینوں میں دل نہیں یا تمہاری کوئی اولاد نہیں؟ کیا تم تک یہ خبریں نہیں پہنچتیں کہ کس طرح کراچی کے پڑھے لکھے اور قابل نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے؟ یہ ٹارگٹ کلنگ نہیں تو اور کیا ہے نوجوانوں کو اسٹریٹ کرائم کی آڑ میں قتل کیا جا رہا ہے ہر روز بوڑھے اور ناتواں باپ جوان اور صحت مند اولاد کا لاشہ اٹھا رہے ہیں اور مائیں ….…ان کا دکھ تو مائیں ہی سمجھ سکتی ہیں کیونکہ “کسی بھی ماں کے سامنے جب جوان اولاد کا جنازہ اٹھتا ہے تو وہ بھی جیتے جی ہی مر جاتی ہے”

یقیناً یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہی ہو رہا ہے کیونکہ ایسا کوئی جرم نہیں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرپرستی کے بغیر ممکن ہو ۔پچھلے دنوں اغوا پرائے تاوان میں بھی پولیس کے اہلکار ہی ملوث نکلے، ڈکیتی میں بھی ان کی شمولیت سامنے آئ یعنی جو محافظ ہیں وہی لٹیرے بن جائیں تو دہائی کس بات کی۔۔۔۔۔ اب تو کراچی کا کوئی خاندان ایسا نہیں بچا جو اسٹریٹ کرائم کی زد میں نہ آیا ہو۔

کیا کراچی کے عوام حکومت کو ٹیکس اس لیے دیتے ہیں کہ انہیں بنیادی سہولیات پانی ،بجلی، گیس سے محرومی تو دور کی بات زندگی سے ہی محروم کر دیا جائے ؟ آخر کب ہوش آئے گا حکمرانوں کو جب ان کے اپنے گھروں سے جنازے اٹھیں گے۔۔۔۔۔ کراچی کے نوجوانوں کا قصور تو بتا دیں ۔۔۔۔۔۔

کیا رزق حلال کمانے کے لیے گھر سے نکلنا جرم ہے ؟

کیا تعلیم حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلنا جرم ہے ؟

کیا گھر کے باہر کھڑے ہو کر دوستوں سے بات کرنا جرم ہے؟

کیا بینک سے پیسے نکالنا جرم ہے ؟

ہمارے محلے میں درجنوں وارداتیں ایسی ہو چکی ہیں جن میں موبائل چھیننے کے دوران گولی مار کر نوجوان کو شہید کر دیا گیا ایک 26 سالہ نوجوان جس کی منگنی ہو چکی تھی گھر کے باہر کھڑا دوست سے باتیں کر رہا تھا ،بائیک پر دو لڑکے آئے ، موبائل بھی چھین کر لے گئے اور گولی بھی مار گئے۔۔۔۔ دوسری گلی میں دو بھائی بائیک سے اترے۔ ایک بھائی نے دروازہ کھولا دوسرا بائیک گھر کے اندر کرہی رہا تھا کہ اچانک پیچھے سے موٹر سائیکل پر لڑکے آئے اور موبائل چھیننے کے دوران گولی مار دی۔۔۔۔۔ ایک اور گلی میں ایک 25 سالہ نوجوان اپنا لیپ ٹاپ وغیرہ لے کر گھر کے اندر جانے کے لیے جیسے ہی گاڑی سے اترا،اسکا پیچھا کرتے ہوئے آنے والے موٹر سائیکل سواروں نے اس سے لیپ ٹاپ چھیننے کی کوشش میں گولی مار دی۔۔۔۔ ایک 27 سالہ نوجوان بینک سے پیسے نکلوا کر آ رہا تھا اس سے موبائل بھی چھین لی ، پیسے بھی چھینے ،بائیک بھی چھینی اور گولی بھی مار دی…ارے سب کچھ تو لے لیا جان تو نہ لیتے۔۔۔ستم تو یہ ہے کہ سی سی ٹی وی کی ویڈیو کے با وجود وہ پکڑے نہیں جاتے۔۔۔.واہ رے ڈاکو راج ۔

کہاں ہے پولیس جس کا سلوگن ہے” پولیس کا فرض ہے مدد آپ کی۔”؟ کہاں ہے رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے۔۔۔کون سی چیز آپکے فرائض میں آڑے آتی ہے اگر آپ شہر کو ان لٹیروں سے نجات نہیں دلاسکتے، ،شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی نہیں بنا سکتے تو آپ کا وجود چہ معنی دارد؟

سنا ہے کچے کے ڈاکوؤں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں مگر کراچی کے ڈاکو تو ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں کیونکہ انہیں پکے کے ڈاکوؤں کی آشیر باد حاصل ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ اگر پکڑے بھی گۓ تو بچا لۓ جائیں گےلہٰذا وہ بلا خوف وخطر دن دہاڑے اسلحہ کی نمائش کرتے ہوئے دندناتے رہتے ہیں اور معصوم جانوں کے لہو سے کراچی کی سرزمین کو لہو رنگ کرتے پھرتے ہیں۔

خدا کے واسطے ڈریں اس دن سے جب ان معصوم اور بے گناہ نوجوانوں کا خون اللہ کے غضب کو دعوت دے گا، ان کی ماؤں کے نوحے، باپ کی گریہ زاری، معصوم بچوں کی چیخیں، اور بہنوں کی بد دعائیں قبر تک آپ کا پیچھا کریں گی، دنیا میں آپ کو سکون میسر ہوگا نہ آخرت میں۔

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا

اے چاند یہاں نہ نکلا کر

نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں

نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں

یہاں الٹی گنگا بہتی ہے

اس دیس میں اندھے حاکم ہیں

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا

اے چاند یہاں نہ نکلا کر