والدین اورمسلمان

مغرب نے جب اللہ کے قوانین سے آزاد ہو کر یا بغاوت کر کے اپنے قوانین و ضوابط بنائے تو یقینی طور پر وہ فطری نظام سے ٹکرا کر مسائل و کشمکش کا باعث بنے لیکن ہٹ دھرمی، حق سے عناد یا جدید جاہلیت ہر تکبر نے انہیں اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے خودساختہ قوانین و ضوابط سے مدد لینے پر لگا دیا۔ نظام فطرت سے بغاوت کے نتیجے میں بے شمار پیدا ہونے والے مسائل کے ساتھ ساتھ رشتوں کے تقدس نے بھی ان کے ہاں مقام کھو دیا لیکن رجوع الی اللہ کی بجائے انہوں نے زوال پذیر معاشرے کو ابتری سے بچانے کے لئے اور نفوس کی تسکین کے لئے عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔

وہ معاشرہ جو والدین کو بوجھ سمجھ کر اولڈ ہوم میں چھوڑ آئے کیا اس کی مسلم معاشرے کو اس حد تک تقلید کرنی چاہئیے کہ وہ خود بھی ان دنوں کو منانے لگے۔

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے پاس مال اور اولاد دونوں ہیں، اور میرے والد میرا مال ختم کرنا چاہتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے والد کے ہیں“۔( ابن ماجہ)

وہ… مسلمان کہ جنہیں بربادی کی نوید سنا دی گئی اگر وہ اپنے والدین میں سے کسی کو بڑھاپے میں پا کر جنت نہ کمائیں…کیا یہ ممکن ہے کہ وہ جنت کمانے کے لئے دن مخصوص کریں. ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:”بے شک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو نے میری بیمار پُرسی نہیں کی۔ وہ کہے گا: اے میرے رب میں کیسے آپ کی بیمار پرسی کرتا آپ تو رب العالمین ہیں؟! اللہ تعالیٰ فرمائے گا” کیا تو یہ نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تُو نے اس کی بیمار پرسی نہیں کی! کیا تو یہ نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا…… (رواہ مسلم) حدیث گو کہ حقوق العباد کی اہمیت بتا رہی ہے اور والدین اس لحاظ سے سر فہرست ہی ہوں گے نا…. جب عام آدمی بیمار ہو بھوکا ہو، پیاسا ہو، کپڑوں کی حاجت رکھتا ہو اور گردونواح والے غفلت کی نیند سوئے رہیں اور عید الفطر پر فطرانہ دے کر جنت کے طلبگار ہوں تو یاد رکھئے کہ ایسی عبادت اللہ کو قبول نہیں جو بادل نخواستہ کی جائے… والدین تو جنت کی کنجی ہیں. ہمارے معاشرے میں یہ دن کیسے جگہ پا سکتا ہے جہاں کا مذہب والدین کے اتنے حقوق بتاتا ہے کہ اولاد صالح فطرت ہو تو ایک دوسرے سے جھگڑنے لگے کہ کہیں جنت کمانے کے موقع سے وہ محروم نہ رہ جائے.

کیا وہ وقت آ گیا ہے ہم پر کہ مغربی معاشرہ کی مانند والدین کے تقدس پر دن مخصوص کریں. انہوں نے تو زوال پذیر معاشرے کی ٹریٹمنٹ کی ہے. کیا ہمارے معاشرے کی حالت بھی اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ ٹریٹمنٹ کے اس عمل سے انہیں بھی گزارا جائے….اب یہ سراسر ہم پر ہے کہ ساری زندگی اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے والدین کا فرمانبردار اور حق ادا کرنے والا بننا ہے یا مغرب کی اندھی تقلید کے نتیجے میں ٹریٹمنٹ بھی فلاح معاشرہ کے ضمن میں انہی سے کروانی ہے؟۔