یہ خاموشی کب تک؟

ہر گزرتے دن کے ساتھ فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جاریت ہماری سماعت اور نظروں سے ٹکراتی ہے اور ہمیں جھنجوڑ جھنجھوڑ کر کہتی ہے کہ ہے کوئی جو ہمارے پیاروں کو مرنے اور جلنے سے بچا سکے؟ کوئی ہے جو ہمارے بچوں کا سر کٹنے سے روک سکے؟ کوئی ہے جو امت وسط ہونے کا حق ادا کر سکے۔

افسوس کہ ان کی آوازیں سن کر بھی ان سنی کر دی جاتی ہیں اور اسرائیل کی سفاکیت عیاں ہوتے ہوئے بھی اندیکھی کر دی جاتی ہے۔

کوئی پوچھے تو صحیح ان مسلمان حکمرانوں سے کہ کس دنیاوی مال کے عوض اپنے بھائیوں اور بچوں کا سودا کر رہے ہو۔ کیا بھول گئے ہو کہ یوم فرقان میں تمہیں اپنی خاموشی کا جواب دہ ہونا ہے اس رب کے سامنے جس کا ترازو بہترین انصاف کرنے والا ہے ۔

غزہ سے آنے والی ہر ایک تصویر اپنے آپ میں ایسا واقعہ ہے کہ جسے سنانے کیلئے الفاظ اور بیان کرنے کیلئے زباں نہیں ۔ امت محمدیہ ﷺ بلبلا رہی ہے، کراہ رہی ہے

مگر ہمارے حکمران اس غرور میں مبتلا ہیں کہ

ہم عالم اسلام کی پہلے ایٹمی طاقت ہیں”

وہاں ہمارے نو مولود بچوں کے سر کٹے جا رہے ہیں اور اِنہیں یہاں خوشی منانے سے فرصت نہیں مل رہی۔ کیا ہی بات ہوتی اگر یہ یوم تکبیر کا اصل مقصد برقرار رکھتے ہوئے اس میزائل کو اسرائیل کی بربادی اور تباہی کے لیے استعمال کرتے اور تمام عالم اسلام میں فخر کا باعث بن جاتے۔ لیکن افسوس ہمارے مسلمان حکمرانوں نے اپنے جسم کے اس حصے کو درد میں تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ لیکن یہ سب یاد رکھیں کہ جب آندھی آئے گی تو چراغ سب کے بجھیں گے کیونکہ ہوا کسی کی نہیں ہوتی ۔ اس دن کے آ لینے سے پہلے اپنے اندر انسانیت کی محبت لے آئیں تاکہ قیامت کے دن جب قاضی اللہ ہوں اور وکیل آپﷺ ہوں توکسی طرح تو

جان کی خلاصی ہوسکے…

آخر میں یہ جملہ تمام بے ضمیر حکمرانوں کے لئے:

ابابیل، بدرى صحابه، نزول عيسی ومہدی مانگنے والو

تم اپنے لیے غیرت اور شرم کیوں نہیں مانگ لیتے….؟؟

حصہ