ذیا بیطس اور طرزِ زندگی

جب بھی کسی شادی یا دیگرکسی پروگرام میں شرکت کرتی کچھ ہی دیر میں بے ہوش ہوجاتی، ہر کسی کی تقریب خراب کردیتی اور نہ جانے اس طرح کتنی راتیں ہسپتالوں میں گزرتیں۔

میں ذیابیطس کی مریضہ ہوں اور تقریباً 13 سال کی عمر سے اس مرض میں مبتلا ہوں۔ اس دوران میرے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو ذیابیطس کے دیگر مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے، یعنی اس شوگر کی بیماری نے دوسری بیماریوں کو جنم دیا اور یہ سلسلہ بڑھتا رہا۔

مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب اسپتال کے کمرے میں چھ بھائیوں اور لاچار وجود کے ساتھ کھڑی میری والدہ اپنے آنسو نہیں روک پا رہی تھیں۔ میرے بڑے بھائی جو میرے آئیڈیل اور بہترین دوست بھی ہیں، پہلی بار میں نے انہیں چھوٹے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے دیکھا۔ میں کہیں کمزور نہ پڑ جاؤں اس لیے میرے ہوش میں آتے ہی انہوں نے منہ پھیر لیا۔ میں کومہ میں جانے کے 24 گھنٹے بعد ہوش میں آئی تھی، سب کو یہی لگا کہ وہ نازوں سے پلی اپنی اکلوتی بہن کو کھو چکے ہیں لیکن یہ تو بس شروعات تھی۔

یہ کہانی 23 سالہ اریبہ کی ہے جو 13 سال کی عمر سے ہی ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ 13 سال کی عمر میں جب ذیابیطس کی تشخیص ہوئی تو اس سے ایک ماہ قبل ہی وہ والد کی وفات کے صدمے سے گزری تھیں۔ یہ زخم ابھی تازہ تھا کہ اسی اثنا میں سب کی چہیتی اریبہ کو ذیابیطس کی شکل میں نیا غم مل گیا لیکن جب انہیں ذیابیطس کا مرض لاحق ہوا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب جتنی بھی زندگی بھی جینی ہے بھر پور اور خوش رہ کر جینی ہے۔

اریبہ نے اس بیماری کے آغاز کے حوالے سے بتایا کہ میری روٹین شاید بہت عجیب تھی۔ میں ناشتے کے بغیر ہی اسکول جانے، ہر چیز میں جلد بازی، واک نہ کرنے، بے وقت کھانے، میٹھے کا شوق، پروسیسڈ فوڈز، نمک، چینی اور چکنائی کا زیادہ استعمال کرنے کی عادی تھی۔ پیدل نہیں چلتی تھی جبکہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی ورزش نہیں کی تھی۔ میں کھانے سے ہاتھ نہیں روک پاتی تھی جبکہ ہمارے ہاں کھانے کا بھی بھرپور اہتمام کیا جاتا۔ مجھ میں تشخیص سے قبل ذیابیطس کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئیں۔ اچانک ایک ماہ میں میری زندگی پلٹ گئی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ‘میں جب بھی کسی تقریب میں شرکت کرتی تو میں کچھ ہی دیر میں بے ہوش ہوجاتی اور یوں ہر کسی کی تقریب خراب کرتی اور نجانے اس طرح میری کتنی راتیں ہسپتالوں میں گزرتی رہیں۔ اس کے بعد اریبہ  نے خود کو محدود کرلیا اور آج وہ 23 سال کی ہوچکی ہیں۔ وہ اب نہ چاہتے ہوئے بھی اس بیماری کو قبول کرچکی ہیں اور اس کے ساتھ ہی معمول کی زندگی گزارنے کی کوشش کررہی ہیں۔ یہی نہیں اب تو اریبہ کی ایک پیاری سی بیٹی بھی ہے جس نے اپنی ماں میں جینے کی امید پیدا کردی ہے۔

اریبہ نے ہمیں بتایا کہ انہیں یہ تک کہا گیا تھا شادی کرنا بیوقوفی ہے کیونکہ ہر انسان ایک بھرپور اور صحت مند جیون ساتھی چاہتا ہے لیکن پھر ایک دن انہوں نے بھی گھروالوں کی رضامندی سے شادی کا فیصلہ کیا لیکن مشکلات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی گئیں اولاد کے حوالے سے بہت پریشان رہتی تھیں۔

اریبہ نے بتایا کہ ‘کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر میں اولاد کی طرف جاتی ہوں تو ہوسکتا ہے میں ابنارمل یا کسی کمی کیساتھ بچے کو جنم دوں لیکن مجھے اولاد کی چاہ تھی اسی لیے جان کی پروا  نا کرتے ہوئے میں نے یہ رسک لیا اور پورے 9 ماہ ہسپتال کے چکر میں گزار دیے۔ میری پہلی بیٹی دل میں سوراخ کے ساتھ پیدا ہوئی جو آٹھ ماہ تک بہت تکلیف دہ زندگی گزارنے کے بعد انتقال کرگئی لیکن اللہ نے ہمیں پھر اپنی رحمت سے نوازا اور اب میں ایک صحت مند بچی کی ماں ہوں۔

میں یہ سمجھتی ہوں کہ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ آگاہی نہ ہونا ہے ہم لوگوں کی باتوں میں بہت آجاتے ہیں اسی وجہ سے بہت سے لوگ اولاد یا گھر بسانے سے محروم رہ جاتے ہیں، اریبہ کی بینائی انتہائی کمزور ہوچکی ہے انہوں نے بتایا کہ میں انسولین کے بغیر کچھ کھا پی نہیں سکتی کئی بار بے ہوشی کی وجہ سے غذائی نالی لگائی جاتی ہے، گردے بھی متاثر ہیں، اس کے علاوہ ایک ماہ قبل میرا پھوڑے کا آپریشن ہوا ہے، میں نے اب تک صرف 23 سال کی عمر میں بہت تکالیف برداشت کی ہیں، میں اپنی بیٹی کے لیے جینا چاہتی ہوں، اپنے ہاتھوں سے اسے دلہن بنانا چاہتی ہوں میرے لیے ہر دن ایک نیا چیلنج ہوتا ہے۔

ذیابیطس کے حوالے سے یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ اس بیماری کی آخری سطح پر انسولین دی جاتی ہے یا پھر یہ کہ انسولین اس کا آخری علاج ہے، اریبہ اس سے اختلاف کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ اگر آپ کے جسم کو انسولین کی ضرورت ہے جو کہ آپ کے ڈاکٹر آپ کو بتائیں گے تو انسولین لینا آپ کے لیے بہتر ہے، یہ نہیں ہے کہ وہ آخری علاج ہے۔

ذیابیطس سے لڑنے والی اریبہ کے مطابق ’13 سال کی عمر سے اب تک تمام ٹوٹکے کرکے میں بھی آج صرف اپنی شوگر کو کنٹرول کرنے کے قابل ہوئی ہوں لیکن اس کا ختم ہونا مجھے ایک خواب ہی لگتا ہے کیونکہ میری نانی، خالہ اور دادی اس جان لیوا مرض کے باعث مجھے بہت پہلے ہی چھوڑ کر جاچکی ہیں، میں کبھی نہیں چاہوں گی میری بیٹی اس مرض کا شکار ہو اس کے لیے میں نہ صرف اس کی خوراک کا خیال رکھتی ہوں بلکہ ہر ماہ طبی معائنہ بھی کرواتی ہوں میری زندگی کو نارمل کرنے میں میرے گھروالوں کے علاوہ میرے جیون ساتھی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

اریبہ اپنی ازدواجی زندگی سے بہت خوش ہیں انہوں نے ہمیں بتایا کہ آج کل لوگ اچھی خاصی لڑکیوں میں نقص نکال کر رشتے کرنے میں ہچکچاہٹ کا سامنا کرتے ہیں وہ اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی زندگی میں ایک ایسا شخص ہے جس نے نہ صرف اریبہ کو اپنایا بلکہ کبھی یہ احساس بھی نہ ہونے دیا ان میں کوئی کمی ہے۔

اریبہ مزید بتاتی ہیں کہ میں اب کسی بھی عوامی جگہ پر جاؤں یا پھر سفر کر رہی ہوں تو لوگوں کو آگاہی دینے کی کوشش کرتی ہوں کہ ہمت مت ہاریں کیونکہ جب تک ہم ہار نہیں مانتے ہم میں جیتنے کی طاقت ہوتی ہے’۔

ذیابیطس کے حوالے سے سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹوز (سی پی ڈی آئی ) بھی مختلف ٹریننگ پروگرام کا انعقاد کر رہا ہے ان کے مطابق  دنیا بھر میں ہر 10 میں سے ایک فرد ذیابطیس کا شکار ہے اور ان میں سے 90 فیصد سے زائد ذیابطیس ٹائپ 2 سے متاثر ہیں، مگر اچھی بات یہ ہے کہ صحت مند عادات کو اپنانے اور ان کا تسلسل برقرار رکھ کر ذیابیطس ٹائپ 2 اور اس کی پیچیدگیوں سے بچنا یا ان کی رفتار سست کرنا ممکن ہے۔

ماہرین کے مطابق ذیابیطس کی بیماری سے ماں‌ اور بچے دونوں‌ کی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے شادی کے بعد اریبہ کے لیےیہ ایک نیا امتحان تھا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ پہلے حمل میں مجھے ان سب چیزوں کا اتنا علم نہیں تھا کہ اگر شوگر کنٹرول میں‌ نہ رکھی جائے تو ان بچوں‌ کا وزن زیادہ ہوجاتا ہے۔ اگر بچے کا وزن زیادہ ہو تو زچگی میں‌ مشکل ہوتی ہے۔ مجھے بھی نارمل کی جگہ سی سیکشن کا کہا گیایہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ ذیابطیس کے مریض‌ کے زخم آسانی سے نہیں‌ بھرتے۔ بس پھر سی سیکشن کی تیاری کی لیکن یہ بچے کے ساتھ ماں کے لیے کڑا امتحان ہوتا ہے۔

اریبہ کہتی ہیں کہ ‘شوگر کے اکثر مریض انسولین کے انجیکشن لگوانے سے گھبراتے ہیں اور ڈاکٹر سے اصرار کرتے ہیں کہ انہیں گولیاں دی جائیں۔ گولیاں ٹھیک ہیں لیکن وہ انسولین کا متبادل نہیں ہیں۔ انسولین کا انجیکشن آپ کو وہ فوری انسولین مہیا کر دیتا ہے جو خوراک کو توڑنے کے لیے کافی ہے۔ بصورتِ دیگر شوگر آپ کے خون میں شامل ہو کر جسم کے دوسرے اعضا مثلاً دل، گردوں اور آنکھوں وغیرہ کو متاثر کرتی ہے۔ انسولین ذیابیطس کو صحیح نہیں کرتی لیکن اس کو مینیج کر سکتی ہے۔

ذیابیطس کی وجہ سے اریبہ دیگر بیماریوں کا بھی شکار ہوئیں، انہوں نے اس حوالے سے ہمیں بتایا کہ مجھے پیشاب کی نالی میں انفیکشن کا سامنا رہتا ہے اور یہ پچھلے  دس سال سے ہے جب سے میں اس مرض کا شکار ہوئی ہوں جو اندر ہی اندر مجھے کھوکھلا کر رہا ہے اس کے علاوہ میرے پاؤں بہت زیادہ درد کرتے ہیں، شوگر کی وجہ سے منہ عموماً خشک ہی رہتا ہےاور مسوڑھوں میں اکثر تکلیف رہتی ہے کبھی کبھار غصہ بھی بہت آجاتا ہے اس کا تعلق گلوکو لیول سے ہوتا ہے۔

ذیابیطس کی اقسام

ذیابیطس ٹائپ ون:

ٹائپ ون ذیابیطس سے مراد ایسی حالت ہے جس میں لبلبہ قدرتی طور پر جسم میں انسولین نہیں بنا پاتا۔ انسولین اس لیے ضروری ہوتی ہے تاکہ خون میں گلوکوز کی مقدار کو قابو میں رکھا جاسکے۔ ٹائپ ون ذیابیطس سے متاثرہ افراد کو روزانہ اپنے خون میں شوگر کی مقدار چیک کرنی پڑتی ہے۔ جسم کی حرکت اور خوراک سے انسولین کی درکار مقدار متاثر ہوتی ہے۔

ذیابیطس ٹائپ 2:

ذیابیطس ٹائپ 2 اس مرض کی سب سے عام قسم ہے اور 90 فیصد افراد کو اسی کا سامنا ہوتا ہے۔ اس مرض کے لاحق ہونے کے نتیجے میں جسم انسولین کے اثرات پر ردِعمل کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔

ٹائپ ٹو ذیابیطس کا مرض عام طور پر 40 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو لاحق ہوتا ہے جس کے علاج کے لیے غذا اور ورزش وغیرہ پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے، تاہم موجودہ عہد کے ناقص طرز زندگی کے نتیجے میںیہ نوجوانوں کو بھی اپنا شکار بنانے لگا ہے۔

ہر پانچ سیکنڈ میں ذیابیطس سے موت ہوتی ہے، دنیا بھر میں ہر سال 14 نومبر کو شوگر کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس میں اس بیماری کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ ماہرین صحت نے کہا کہ دنیا میں ہر پانچ سیکنڈ میں ایک مریض ذیابیطس کے باعث زندگی کی بازی ہارجاتا ہے۔ دنیا میں سالانہ 67 لاکھ لوگ شوگر کے باعث اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، ملک میں بالغ افراد میں ذیابیطس کی شرح 26.7 فیصد سے زائد ہے جبکہ نوجوانوں میں اتنے ہی لوگوں کے شوگر کے مریض بننے کے خطرات موجود ہیں کیونکہ گزشتہ برسوں میں ہمارے یہاں موٹاپا تیزی سے بڑھا ہے، غذا میں چکنائی کا زیادہ استعمال، ورزش سے جی چرانے کی عادت اور معاشی دباؤ پاکستان میں اس مرض میں اضافے کی وجہ بن رہا ہے۔

ہم ایک ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں غیر متعدی امراض سے انتقال کرنے والوں کی تعداد متعدی امراض سے مرجانے والوں سے زیادہ ہے، غیر متعدی امراض میں شوگر سرفہرست ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جن لوگوں کی فیملی ہسٹری ہے وہ تو ذیابیطس کے خطرے سے دوچار ہیں ہی لیکن شہری طرز زندگی، مرغن غذائیں کھانے، پروسیسڈ فوڈز اور کاربوہائیڈریٹس کے استعمال سے ہر گزرتے دن مریضوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، پیدل چلنے سے بچنا اور ورزش سے کترانا بھی اس مرض میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ اس مرض سے محفوظ رہنے کے لیے اپنے طرز زندگی کو بہتر بنانا فائدے مند ثابت ہوسکتا ہے۔