ہم عجب دقیانوسیت پر اتر آئے ہیں یا شاید سیکولر ازم کی یلغار کے آگے بے بس ہو گئے ہیں، نماز مسجد میں ادا کرنا اور روزوں کا رکھنا اللہ کی فرمانبرداری اور عبادت تو ہے ہی مگر یہ اس عظیم مشن کی تکمیل کے لئے گویا ایک مستقل ٹریننگ بھی ہے جو امت وسط کی حیثیت سے ہمارا فرض تھا، یعنی نماز پڑھتے پر اوجھڑی کا کمر مبارک پر رکھ دیا جانا تکلیف دہ تھا اور یہ تکلیف اسی لئے اٹھائی گئی کہ نماز پڑھنی ہی نہیں قائم کرنی یے، انفرادی طورپر یہ فریضہ ادا کرنے میں مشرک کو بھی باک نہ تھا مگر نظام کی تبدیلی سے اختلاف تھا۔
آج ہماری نمازوں میں اثر کیوں نہیں ؟ کیونکہ ہم عبادت کو بہت محدود معنوں میں لیتے ہیں ہم چند حرکات وسکنات کے بدلے میں رضائے الٰہی کے طلب گار ہوتے ہیں، ہم بندگی کے مفہوم کو یا تو قفل لگے دل ودماغ سے لیتے ہیں یا ہم ارادتاً، مسجد میں رب سے سگے ہونے کے دعوے کرتے اور آنسو بہاتے ہیں، منبر و محراب ہر اللہ کو ایک مانتے ہیں لیکن سیاسی خدا فرعون وقت کو مانتے ہیں… یہ کہنا بالکل غلط نہیں کہ ہم ثنویت کے قائل ہیں، ہم لاکھ کہیں کہ امریکہ کو ہم الہ نہیں مانتے مگر ہمارا رواں رواں ہمارے قول کی تردید کر رہا ہوتا یے۔
جب اس دوہرے رویے کے باعث، بے دینی کی بدولت طرح طرح کے فتنے رونما ہوتے ہیں تو ہم کبھی روحانی شخصیت تلاشتے ہیں تو کبھی غیر متوازن شخصیت بن جاتے ہیں، منبر کے قائد اور کرسی اقتدار کے قائد میں دوئی کے نتیجے میں ، جب ہمارا اقتدار والا قائد میوزیکل بینڈ کی کھلی چھوٹ دیتا ہے تو ہم دین بچانے اور اپنے تئیں خوشنودی رب ک خاطر مذہبی جلسے جلوسوں کا حصہ بنتے ہیں۔
آئیے، اپنے گھرانوں کو دین سے جوڑیں، ہم راہب نہیں کہ سیاسی فرمانرواؤں کے آگے جھک جائیں، ہماری مسجد کا امام ہی حکمت اور بصیرت سے بھر پور ہوتا ہے وہ سیاست کی طنابوں سے لے کر محاذوں کی گرمی سردی سے بخوبی آگاہ رہتا اور بروقت کمانڈ کرتا ہے. یاد رہے نماز، روزہ دین کے ستون ہیں یعنی جو دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے اس کے لئے ارکان اسلام ہیں جن پر دین کی عمارت قائم ہے لیکن اللہ اور رسول کو ماننا عقیدہ ہے اور جو میدان سیاست میں اللہ کی فرمانروائی نہیں مانتا وہ دراصل حواری فرعون ہونے کا ثبوت دیتا ہے اور جو میدان سیاست میں نبی آخری الزماں سے نمونہ نہیں لینا چاہتا وہ نہ صرف بدر و احد، میثاق مدینہ، صلح حدیبیہ، فرمانرواؤں کو بھیجے جانے والے خطوط غرض نبی مہرباں کی سیاسی بصیرت سے نا آشنا ہے، بلکہ رسالت کا انکار کرتا ہے۔ آئیے اپنے اندر عمر بن عبدالعزیز تلاشیں اور اسے مسند اقتدار ہر بٹھا دیں کیونکہ یہی عین دینداری ہے۔