“آٹھ سو کفن دے چکا ہوں ، حکومت نے دوسواور مانگے ہیں۔ ان میں وہ تین سو چادریں شامل نہیں ہیں جو الگ سے مانگی گئی تھیں۔”
قارئین! آپ حیران ہو رہے ہیں کہ نہ حوالہ نہ کوئی سیاق و سباق اور ان الفاظ کے ساتھ کالم کا آغاز یہ چکر کیا ہے، تو جناب! یہ الفاظ ہیں عبد الستار ایدھی کے جو کہ ایک خبر کی شکل میں 12 جولائی 2007ء میں بڑے اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔ اس خبر کا تعلق “آپرشن سائلنس” سے ہے۔ جی ہاں آپ کو یاد آگیا لال مسجد کا واقعہ…اور ہماری یاد داشت کی تختی پہ اچانک 4 اپریل 1979 کی تاریخ ابھر آئی ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا واقعہ ہوا، اور اس کے ساتھ ہی 11 مئی 1953ء کی تاریخ بھی ابھر آئی ہے کہ، جب ایوبی مارشل لاء نے اس صدی کے مجدد کو سزائے موت دینے کا فیصلہ صادر کیاتھا۔۔۔ بعد میں کسی دن ایک لمحے بھر کے لیے شاید ان کی عقل نے ان کاساتھ دیا اور فیصلہ واپس لے لیا گیا۔
مذکورہ بالا مثالیں دورِ آمریت کی یاد دلاتی ہیں۔۔
سیانے کہتے ہیں کہ
دورِ آمریت اور دورِ جمہوریت میں بہت فرق ہوتا ہے اور فرق ہونا چاہئے۔
کاش ایسا ہوتا، کاش ہم نے سیانوں کی بات کو اہمیت دی ہوتی ، تو ہم شروع سے ہی بحیثیت قوم اس پر عمل کرتے کہ ملک میں آئین کی بالادستی ہو، جمہوریت کا سفر بلا تعطل جاری و ساری رہے، عوام کے حقوق عوام کو بلا امتیاز ملیں۔
یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ عوام کے حقوق کی وضاحت آئین سے ہوتی ہے۔ انہی حقوق میں سے ایک ہے احتجاج کا حق۔
اس وقت غزہ اور جبالیا اور نابلس میں جو تباہی اسرائیل کے ہاتھوں جاری ہے گنجان آباد علاقے شدید بمباری کی زد میں ہیں آٹھ ماہ سے یہ سلسلہ جاری ہے اب تو وہ لوگ جنازے اٹھا اٹھا کر شاید تھک گئے ہیں۔بمباری کی تصویریں اور ویڈیوز آپ دیکھتے ہیں ہر روز میڈیا پر۔ سچ بتائیں کیا کیفیت ہوتی ہے؟ کیا حالت ہوتی ہے آپ کے اندرونی کرب کی کہ جب آپ آگ اور بارود کے اس خونی کھیل کے دوران آسمان پر سیاہ دھویں کے وہ گہرے خوفناک بادل دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ چلیں ذرا دیر کے لئے یہ سوچیں کہ یہی سب کچھ اگر جانوروں اور درختوں کے ساتھ کیا جاتا تو آپ کا ردعمل کیا ہوتا ؟؟؟
تڑپ اٹھتے، پریشان ہوتے، احتجاج کرتے، شور مچاتے یہی نا ؟؟؟
تو گزشتہ آٹھ ماہ سے ایک علاقے میں جیتے جاگتے باشعور انسانوں کے ساتھ یہ ہو رہا ہے کیا کہیں گے آپ ؟ ظلم ؟ بدتہذیبی؟ وحشیانہ کاروائیاں ؟ درندگی؟ نسل کشی؟
جی ہاں یہ سب الفاظ جو آپ نے کہے یہ بھی شاید ناکافی ہیں۔
اب اگر آپ یہ کرب، یہ دکھ اور وہاں کے حالات کی تصویر کشی کرتے یہ الفاظ بند کمرے میں، بس اپنی ذات تک ہی رکھیں گے تو جانتے ہیں کیا ہوگا ؟ آپ کا دماغ پھٹنے لگے گا ، عجب گھٹن کا ماحول سارے کمرے میں پیدا ہو جائے گا تو پھر کیا کریں گے آپ ؟
جی ہاں بالکل صحیح کہا آپ نے ، آپ آواز اٹھائیں گے ، آپ سوچیں گے کہ یہ ہم کس دنیا کے باسی ہیں اس دنیا پر کس انسانی گروہ کی حکمرانی ہے کہ جو آٹھ ماہ سے جاری اس درندگی کو نہ صرف یہ کہ رکوا نہیں سکے بلکہ سپورٹ کر رہے ہیں ، اسلحہ فراہم کرتے ہیں، درندوں کے تحفظ کے لئے عالمی قوانین کی دھجیاں تک اڑا دیتے ہیں۔، آپ سوچیں گے یار یہ تو بہت خطرناک بات ہے کل کلاں کو میرا خطہ، میرا گھر محفوظ رہے، اس کی کیا ضمانت ہے؟ آپ جب ایسا سوچیں گے تو یقیناً اپنا یہ دکھ اپنا احتجاج اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ شیئر کریں گے اور تمام ممالک بشمول پاکستان کا دستور ہر شہری کو احتجاج کا حق دیتا ہے۔
یہی حق استعمال کرتے ہوئے کچھ لوگ سڑکوں پر آتے ہیں اور دراصل تو ان ممالک کے قونصلیٹ کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرانا جو دنیا کو خاص طور پر تیسری دنیا کی گردن پر اپنا تہذیبی، معاشی، معاشرتی شکنجہ سخت کئے جا رہے ہیں، ان ممالک تک اپنا احتجاج پہنچانا کیسے غلط ہو سکتا ہے ؟ اس کا طریقہ یہی ہے نا جو سیو غزہ مہم کے کارکنان نے مشتاق احمد خان کی سر کردگی میں اختیار کیا ہے۔
یورپی اور مغربی ممالک میں عوام آٹھ کھڑے ہوئے ہیں غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف، لیکن یہاں اپنے حکمرانوں کا حال دیکھ لیجئے۔
رمضان المبارک میں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ان حکمرانوں کا سلوک آپ بھولے نہیں ہوں گے۔
اب تازہ واقعہ!
ڈی چوک میں مظاہرین پر گاڑی چڑھا دی۔ پولیس خاموش تماشائی بنی کھڑی رہی، دو افراد شہید متعدد زخمی، شہید ہونے والے ایک کا تعلق اسلامی یونیورسٹی سے ہے، رومان ساجد۔ کیا ہمارے حکمران کل بڑی عدالت میں رومان ساجد کی زندگی کے چراغ گل کرنے کا کوئی جواز پیش کر پائیں گے ؟؟؟
کیا قصور تھا اس معصوم سے چہرے والے اٹھتے شباب کا ؟؟؟ بس یہی نا کہ وہ درندگی کے گہرے ہوتے مہیب سائے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ اس درندگی اس سفاکی کو روکنے کی بات کررہا تھا۔ وہ اپنے حکمرانوں سے کہہ رہا تھا کہ غیرتِ ایمان کو آواز دو ظالموں کی ذہنی غلامی کا طوق اتار پھینکو ۔۔۔ یہی ان حکمرانوں سے برداشت نہ ہوا اور گاڑی چڑھادی گئ مظاہرین پر۔ واضح رہے پولیس کا اس سفاکانہ کھیل کے دوران خاموش رہنا بتاتا ہے کہ یہ حکومت کا طے شدہ پلان تھا
اور پھر جو زخمی ہیں ان کے زخم تو مندمل ہو جائیں گے لیکن جو بےحسی، بے غیرتی، ظلم پر خوفناک خاموشی کی مثالوں کے زخم ملت کو دئے ان حکمرانوں نے وہ کیسے مندمل ہوں گے؟ اس پر سوچیں گے اہلِ بصیرت کیا؟؟؟
قارئین! غزہ دھرنے اور غزہ پر احتجاجی ریلیاں اس حکومت کو قطعئ گوارا نہیں۔ اس کی صاف وجہ یہی سمجھ آتی ہے یعنی اپنے آقاوں کا دائمی خوف ان کی روحوں میں سرائیت کر چکا ہے۔ موجودہ حکمران اور ان کے حواری عمران خان حکومت پر جو الزامات لگاتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے مخالفین کو دبانے اور اختلاف رائے کرنے والوں کی زبانیں بند کرنے کی روش اپنائے رکھی۔ لیکن خود اس حکومت کا معاملہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔
اب ہم اس حکومت سے یہی کہ سکتے ہیں کہ مستقل طور پہ دفعہ 144 نافذ کر دیجیے۔ بانس اور بنسری سے بیک وقت چھٹکارا پاییے۔