رخشندہ ! حضرت عمر فاروق رضی تعالٰی عنہ تو خلیفہ وقت تھے پھر بھی وہ تمام رات غریب دیہاتی اور اسکی بیوی کی
مدد کے لیے ان کے ساتھ رہے، مما آج کل تو کوئی عام ادمی بھی ایسا نہیں کرتا۔
بیٹا دین اسلام بڑا پیارا دین ہے وہ لوگوں کی اسی طرح مدد کرنے کی تعلیم دیتا ہے پھر ان کی اس نیکی کا بدلہ اللہ رب العزت ہی دیتا ہے اللہ رب العالمین اپنے ایسے بندوں کی مشکل میں خود مدد کرتا ہے اور برکتیں عطافرماتا ہے (مما دور کہیں خیالوں کی دنیا میں پہنچ گئی)
مما کو بہت دیر خاموش دیکھ کر رخشندہ نے انہیں پکارا تو وہ خیالوں کی دنیا سے باہر آگئی۔۔۔ مماَ ، بیٹا دوسروں کو اگر ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ضرور آگے بڑھناچاہیے۔
عمیر !–اور مما اگر ہم اس قابل نہ ہوں کہ کسی کی مدد کر سکیں تو؟
مما !– یہ تو اور بھی افضل مقام ہے کہ بندہ اپنی ذات کو تکلیف میں رکھ کر کسی کی مدد کرے۔
رخشندہ !– وہ کیسے مما ؟
مما کو دس سال پہلے کا واقعہ یاد آگیا جب رخشندہ ڈھائی سال کی اور عمیر آٹھ مہینے کا تھا اور دونوں بڑے بیٹے کالج جاتے تھے۔
رخشندہ !- مما آپ کچھ سوچ رہی ہیں،
مما !- ایک واقعہ یاد آگیا ان شاءاللہ کل سناوں گی ابھی آپ کے سونے کا وقت ہو گیا ہے۔
زینب بچوں کو خدا حافظ کہہ کر اپنے کمرے میں آئی سلیم (اسکے شوہر) سوچکے تھے وہ بھی لیٹ گئی، ماضی کا وہ مختصر سا واقعہ اسکی نظروں میں آگیا۔
خالہ نعیمہ زینب کی دور پرے کی سسرالی رشتہ دار تھی شوہر کا انتقال ہو گیا تھا ویسے تو پورا سسرال خوشحال تھا لیکن آٹھ بچوں کے ساتھ اس بیوہ کی کوئی خبر گیری کرنے والا کوئی نہ تھا۔
وہ لاڑکانہ سے کراچی روز گار کے لئے آئی تھی گرچہ اسکے اپنے بھی قریبی رشتہ دار کراچی میں موجود تھے لیکن وہ ان سے مایوس ہو کر زینب کے پاس آئی،
زینب اور اسکے شوہر کے مالی حالات بھی ابتر تھے دو کمروں کے اپارٹمنٹ میں روکھی سوکھی کھا کر مشکل سے بچوں کو تعلیم دلوارہے تھے لیکن اس نے خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کیا جو کچھ کھانے پینے کو موجود تھا پیش کردیا۔
خالہ نعیمہ!– بیٹا! میں اور میری بیٹیاں سلائی کڑھائی کا کام جانتی ہیں ہمارے شہر میں تو اس کام کا اتنا معاوضہ نہیں ملتا میں دراصل یہاں یہ کام شروع کرنا چاہتی ہوں اس کے لیے،، میرا مطلب ہے کہ جب تک میں اپنا ٹھکانہ تلاش کروں مجھے کچھ دن میں اپنے ان دونوں بچوں کے ساتھ اگر تمہارے گھر رہ جاوں۔
خالہ بیچاری کو اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
زینب خود کسمپرسی سے گزارا کر رہی تھی اسے خالہ کے حالات کا بھی احساس تھا۔
زینب !– خالہ آپ جب تک چاہیں یہاں رہ سکتی ہیں جو دال روٹی نصیب میں ہے مل کر گزارا کر لیں گے، زینب نے اس پڑوس میں خالہ کے لیے گھر ڈھونڈنے میں نہ صرف خالہ کی مدد کی بلکہ اپنی پڑوس کی خواتین سے اسکو سلائی کے لیے کافی کام لیکر دیا۔
زینب کی کوشش سے ایک پڑوسی نے اپنے دوست کا دوکمروں کا اپارٹمنٹ بہت کم کرایہ پر خالا کو لیکر دیا ان بیس پچیس دنوں کی سلائی کی آمدنی سے اپارٹمنٹ کے ایڈوانس رقم کا بھی انتظام ہوگیا۔
اس طرح خالہ کے گھر اور روز گار کا مسئلہ حل ہوگیا تو خالہ نے اپنےبڑے بچوں کو بھی کراچی بلوالیا۔
رب العزت بڑا کریم ہے وہ بندے کو بندے کا وسیلہ بناتا ہے زینب کی یہ کوئی بڑی نیکی نہیں تھی لیکن اللہ رب العزت کو زینب کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ اللہ نے برکت عطا کی شوہر کی تنخواہ میں اضافہ ہوا بلکہ جس ادارے میں وہ خود ملازمت کر رہی تھی انہوں نے اسے ترقی دیکر دوسری برانچ میں ٹرانسفر کیا دونوں بڑے بیٹے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیوشن بھی پڑھانے لگے جس کی وجہ سے آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا آج وہ ایک خوشگوار آسودہ زندگی گزارنے کے قابل ہوگئی تھی لہذا اسکی اپنے بچوں کو بھی یہی نصیحت تھی کہ ہمیشہ دوسروں کے کام آئیں اور دوسروں کی تکلیف کا احساس کریں گرچہ مشکل ہی کیوں نہ لگے۔ کسی چھوٹی چھوٹی نیکی سے بھی اپنی ذات کو محروم نہ رکھیں۔ یقینا اللہ رب العزت آخرت میں بھی ضرور اس کا اجر دے گا۔