جب جب کرے گا ایک منصف مزاج مورخ اورنگ زیب عالمگیر کے روشن کردار اور سادگی و حسن عمل سے مزین اس کی شخصیت کا تذکرہ ، تو بھلے لفظوں ہی میں کرے گا۔ مغلیہ سلطنت کے اس چھٹے بادشاہ نے تقدیر امم کا راز پالیا تھا جبھی تو دیگر کئ اصلاحات کے ساتھ یہ بھی حکم جاری کیا کہ ، موسیقار اور گوییے اور رقاص اپنی راہ لیں۔
اب یہ فنکار بھی تو بڑے چالاک ہوتے ہیں انھوں نے کیاکیا موسیقی کاجنازہ تیار کیا جنازے کو لیے آہ و بکا کرتے شاہی محل کے سامنے سے گزرنے لگے۔ اورنگزیب عالمگیر نے جب دیکھا تو پوچھا،، کس کا جنازہ ہے، بتایا گیا موسیقی کا،،
اورنگزیب نے کہا ،، قبر ذرا گہری کھودنا،،،،
تاریخ گواہ ہے یہ قبر گہری کھدنے کے بعد سلطنت نے خوب ترقی کی۔ اچھی معاشرت کے ساتھ مضبوط معاشی نظام نے لوگوں کی زندگی آسان کردی ۔۔۔ مگر۔۔ افسوس اسی سلطنت کے ساتویں بادشاہ محمد شاہ رنگیلا نے اس قبر کو پاٹ ڈالا ۔ ۔۔۔۔ بس پھر کیاتھا طوائفیں ،گلوکار، رقاص فن اور تفریح کے نام پہ پوری معاشرت کو اپنی گرفت میں لینے لگے ۔ پچھلے بادشاہ نے جو مقام شمشیروسناں کو دیاتھا رنگیلے شاہ نے وہ مقام طاوس و رباب کو دے ڈالا۔ دشمن کو ایسے ہی موقعے کی تلاش ہوتی ہے۔ نادرشاہ کیسے یہ موقع گنواتا اس نے گائیکی و رقص کی دلداہ سلطنت پہ کر دیا زور دارحملہ۔ اور ۔۔۔۔قارئین۔۔۔ اسی سلطنت کی ایک ،مایہ ناز فنکارہ ،، نے اپنے ،فن، ہی کے کسی مظاہرے کے دوران نادرشاہ کے گوش گزار کیا کوہ نور کاراز۔ یوں سلطنت کی دیگر قیمتی اثاثہ جات کے ہمراہ کوہ نور جیسا قیمتی ترین ہیرا پہنچا نادر شاہ کے قبضے میں۔ داستان یہاں ختم نہیں ہوتی مگر یہاں موقع نہیں کہ ہم اس اندوہناک داستان کے آگے کے ابواب کی ورق گردانی کریں ۔۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔مگر ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے کہ پنجاب کی وزیر اعلی مریم نواز شائد اس داستان کے انھی رنگین کرداروں سے متاثر ہیں جبھی تو چاہتی ہیں قوم کے نونہالوں کو راگ رنگ کا رسیا بنا دیا جائے۔
جی ہاں! پنجاب بھر میں میوزک فیسٹیولز اور تعلیمی اداروں میں موسیقی کے مقابلہ جات کرانے کا فیصلہ یہی تو بتا رہا ہے۔
ہم سا مُتَلَوِّن المِزاج بھی آپ نے کسی کو پایا ہو تو بتاییے گا۔ جب وقت ملے بتاییے گا فی الحال تو ہماری ظرافت کی رگ پھڑک اٹھی ہے۔ اب جب کہ یہ رگ پھڑک اٹھی ہے تو ہمیں نوجوان نسل کے مستقبل میں بہت، ٹھاٹھ، دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ کیسے؟ دیکھیں جی موسیقی کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ انہیں ’ٹھاٹھ‘ کہتے ہیں۔ جب ہمارے نوجوان یہ سیکھ جائیں گے تو ان کے ٹھاٹھ بڑھ جائیں گے۔ جب ٹھاٹھ بڑھیں گے تو آپ خود اپنے بچوں کو دیکھ کر کہیں گے بڑے ٹھاٹھ باٹھ ہیں بھئی۔۔۔!
قارئین! ان ٹھاٹھوں سے نکلتے ہیں مختلف راگ مثلاً،،،،،،راگ بھوپالی، راگ ملتانی، راگ مالکونس اور راگ میاں کی ٹوڈی۔۔
ہمیں لگتا ہے پنجاب حکومت کا ’نوجوان‘ وزیرِ اعلیٰ کے ویژن پر پورا اترنے کی خاطر میاں کی ٹوڈی میں زیادہ دلچسپی لے گا کیونکہ یہ والا نعرہ تو پہلے ہی ’زبان زدِ عام‘ ہے کہ میاں دے نعرے وجن دے، وجن دے۔۔۔
ہم مریم نواز بی بی کے ویژن کی عملی تصویر کچھ یوں بھی دیکھ رہے ہیں:
ہائی اسکول میں نہم کلاس میں کیمسٹری کا پیریڈ شروع ہے۔ استاد صاحب پوچھتے ہیں رول نمبر 36 اور رول نمبر 41 کہاں ہیں؟
سر وہ دونوں میوزک روم میں ریاض کر رہے ہیں۔۔۔
استانی صاحبہ بچوں کی کاپیاں چیک کرنے میں مگن ہیں کہ ایک مقدمہ ان کے سامنے پیش ہوتا ہے
مس! مس!
“اوں” کاپیوں کے انبار سے سر اوپر اٹھا کر ، چشمے کو تھوڑا ماتھے پر چڑھا کر استانی صاحبہ پوچھتی ہیں “کیا مسئلہ ہے”؟
“مس! ۔۔۔ مس! یہ لڑکی مجھے شرتی کہتی ہے، میرا نام بگاڑتی ہے”
“تم ہو بھی تو شرتی” ایک لڑکی نے بے ساختہ کہہ دیا
“دیکھا آپ نے مس! یہ سب اس کی وجہ سے ہے۔ یہ کتنی دیر سے یہی نام دہرائے جا رہی ہے ۔۔۔ “
“کیوں بھئی رضوانہ! تم کیوں اتنی دیر اسے تنگ کر رہی ہو؟”
“میں ! میں تو موسیقی کی اصطلاحات یاد کر رہی ہوں”
“لیکن کیوں ؟”
“مقابلے میں حصہ لوں گی میں”
“اور وہ اصطلاحات کیا ہیں ؟”
“اوڈو، برن، سمپورن، کھاڈو اور شرتی ۔۔۔”
ساری کلاس ہنسنے لگ گئی۔
“اُف ” مس نبیلہ نے چشمہ اتار کر میز پر رکھ دیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔
دور دراز گاؤں کا پرائمری اسکول ایک ہی فرد ہیڈماسٹر بھی اورمعلم بھی تین سو بچوں پر مامور ایک فرد کے اعصاب کبھی کبھی شل بھی ہو جاتے ہیں۔ شاید کچھ ایسی ہی صورتحال ہے کہ ماسٹر صاحب نے تین لڑکوں کو گراؤنڈ میں مرغا بنا رکھا ہے۔ ان کی نگرانی پر مامور لڑکا بھاگا بھاگا آتا ہے،،،
“ماسٹر جی! ماسٹر جی! وہ جو ارشد ہے نا کچھ کہہ رہا ہے مسلسل ایک ہی فقرہ دوہرا رہا ہے ۔۔۔”
ماسٹر خود گراؤنڈ میں آتے ہیں۔ دیکھتے کیا ہیں کہ ارشد مرغا بنے مسلسل گائے جارہا ہے،،
“ایک ستم اور میری جاں ابھی جان باقی ہے”
ماسٹر صاحب مرغے کو انسان بننے کا اشارہ کرتے ہیں نگرانی پہ مامور لڑکے سے پانی کا گلاس لے کے ایک ہی گھونٹ میں پی جاتے ہیں اور سر نیچے کیے واپس اپنی کلاس میں آبیٹھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت ہوا مریم بی بی! بادل ناخواستہ
آپ کے ’اعلیٰ وژن‘ کی کچھ وقوعے ہم نے نقل کردیے۔
لیکن وزیر اعلیٰ صاحبہ! ہم ہنسے بہت ہیں تو روئے بھی بہت کیونکہ عجیب تماشا لگا رکھا ہے آپ لوگوں نے۔ ایک طرف ہمارے قبلہ اوّل کے سائے تلے سفاک اسرائیل نے سینتیس ہزار عورتیں، بچے، جوان، بزرگ خون میں نہلادیے، جو زندہ بچ گئے ان سے روٹی کالقمہ، علاج معالجہ کی سہولت، کسی محفوظ پناہ گاہ کی طرف کوچ کر جانے کاحق، سب کچھ چھین لیا۔۔
دوسری طرف آپ لوگ ہو کہ راگ رنگ کے مقابلہ جات منعقد کروا رہے ہو۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔
اب چند تجاویز پیش ہیں شاید کہ تھوڑی دیر کے لیے آپ کا ضمیر آنکھیں کھولے اور یہ باتیں آپ کے دل میں اتر جائیں۔۔
۔۔۔۔ اچھی آواز عطیہ خداوندی ہے ۔آواز کی تلاش اچھا مقصد ہے۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔ تجوید القرآن کے لیے۔۔۔ سوچیے اس پر۔
مریم بی بی! قرآن کو نوجوانوں کااوڑھنا بچھونا بنا دیں، پھر دیکھیے گا کیسی طاقت، کیسی بجلی بھر جاتی ہے مٹی کے ان پتلوں میں۔ لیکن اگر آپ یہ چاہتی ہیں کہ مٹی کے پتلوں کی ناک موم کی بن جائے کہ عالمی بدمعاش اور مافیاز ان کو جدھر چاہیں، موڑ لیں تو آپ اپنے فیصلے پر قائم رہیں لیکن کسی اور خطے میں چلی جائیں۔ یہاں تو آئین بھی آپ کو اس قبیح فعل کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ مزید برآں والدین اور اساتذہ پریشان ہیں، متفکر ہیں۔کیا اس ملک میں آپ کے خاندان نے اپنے طویل دور حکومت کے دوران پہلے کم پریشانیاں بانٹی ہیں؟
۔۔۔۔ نظام تعلیم میں نیک نیتی کے ساتھ اصلاحات کیجیے
۔۔۔۔۔ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ یہ سب آپ کی ذمے داری ہیں۔لہذا نئے اسکولز بنانے کا منصوبہ تیار کیجیے۔۔
۔۔۔۔۔ یہ جو طبقاتی نظام تعلیم ہے اس سے قوم کو نجات دلایے۔
۔۔۔ سپریم کورٹ کا حکم نامہ اور قوم کے بچوں اور نوجوانوں کی صورتحال چیخ چیخ کے کہہ رہی ہے کہ اردو کو جلد از جلد سرکاری زبان کےطور نافذ العمل کیا جائے۔۔
۔۔۔ وزیر اعلی صاحبہ! آپ اور آپ کے ساتھیوں کے لیے ایک اور تجویز ہے کہ شاعرمشرق (رحمہ اللہ علیہ) کے شاید کچھ اشعار آپ کو یاد ہوں، تو اس شعر کو کسی استاد کے پاس بیٹھ کے سمجھیے اور اس پر کام کیجیے
آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر