درسگاہیں بنیں تھیٹر

سیلاب سے پہلے ماحول ایک آلارم دیتا ہے دریا ساکن ہو جاتا ہے اور فضا سیلاب کی آمد کی اطلاع دیتی ہے۔۔۔۔۔۔ایسے میں علاقے کےعقلمند اور سمجھدار لوگ پھاؤڑے،بیلچےاور کسیاں اٹھائے دریا کا رخ اختیار کرتے ہیں تاکہ بند مضبوط کیا جاسکے اور رہائشی آبادی کو سیلاب کی تباہی کاریوں سے بچایا جاسکے۔

ایسے ہی طوفان کی آمد سے قبل بھی ہوا رک جاتی ہے،درخت ساکن ہو جاتے ہیں جو پیش خیمہ ہوتی ہے طوفان کا اور اطلاع ہوتی ہے زمانے والوں کےلئے کہ اپنی اور اپنے مال و متاع کی حفاظت کر لیں۔

ہمیشہ زمانے کے دانا بینا لوگ فضا کو دیکھ کر سیلاب،طوفان یا بارش کی پیش گوئی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔اب عوام میں سے جو لوگ ان کی بات کااعتبار کر کے اپنی اور اپنے مال و متاع کی حفاظت کا بندو بست کر لیتے ہیں، وہی تباہی کاری سے بچ جاتے ہیں اور جو ان کی بات کو ہنسی مذاق میں اڑا دیتے ہیں یا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں ان کو بچانے کے لیے کوئی فرشتے آسمان سے نہیں اترتے ۔

چند روز قبل لاہور سے واپسی پر ایک فیملی نظر سے گذری جس میں ایک شریف النفس ماں جو چادر میں لپٹی تھی ایک معزز دکھنے والاباپ اور تین بیٹیاں تھیں ۔سب سے بڑی بیٹی جس نے لان کے سوٹ کے ساتھ ایک کندھے پر نیٹ کا دوپٹہ اٹکایا ہوا تھا اور بچی کے تمام نشیب و فراز واضح تھے۔۔۔۔۔۔وہ فیملی اترنے سے قبل ہماری سیٹس کے قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔ اب اس بچی نے جو بولنا شروع کیا تو میں اور ناظمہ بہن منہ میں انگلیاں دابے اس کے انداز ملاحظہ کرنے لگیں۔وہ مسلسل والد کو ڈکٹیٹ کر رہی تھی کبھی کہتی پاپا ادھرہو جاؤ اور کبھی کہتی ادھر ہو جاؤ ،کبھی کہتی فلاں کو گذرنے دو اور کبھی کہتی ویسے کرو۔ اور اچھا خاصا صحتمنداور معزز پاپا اس کے اشاروں پر ایسے عمل کر رہا تھا جیسے کٹھ پتلی ہو۔

پنسرہ جیسے پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھنے والی اس بچی نے یقیناً نیا نیا کالج ،یونیورسٹی کا منہ دیکھا ہو گا اور نیا نیا ترقی کی راہ پر قدم رکھا ہو گا۔

اسے دیکھ کر سچ میں قرب قیامت کی وہ نشانی یاد آگئی کہ عورت اپنی مالکن کو جنے گی ۔۔۔۔۔۔۔اور مرد کے لیے استعمال شدہ لفظ  “دیوث” کو عملاً سمجھ لیا۔

ابھی تو یہ رسمی تعلیم کی کارستانی ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں

عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی

ہم سے تو لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے اثرات بد ہی سنبھالے نہیں جا رہے تھے کہ وزیراعلی صاحبہ کے نئے حکم نے ہوش اڑا دیے ۔۔۔۔۔ ۔۔یعنی اب درسگاہیں ،درسگاہیں نہ رہیں گی ۔۔۔۔۔۔مجرا گاہیں اور تھیٹرز بنیں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے وطن کے خرد مندو! دھویں کو شعلہ بننے سے قبل پانی ڈال دو،،سیلاب سے پہلے بند باندھ لو،طوفان سے قبل بستر سمیٹ لو،گھروں کے لٹنے سے قبل کنڈیاں لگا لو،عزتوں کے جنازے نکلنے سے قبل بیٹیاں سنبھال لو،درسگاہیں کوٹھے بننے سے قبل منہ سے چوسنیاں نکال دو ۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ پھر اس قوم کو ذلت کے گڑھے میں گرنے سے ملائکہ بھی نہیں روک پائیں گے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خود اپنی حالت کے بدلنے کا خیال

یاد رکھیے ۔۔۔۔۔۔۔جب کوئی قوم طاؤس و رباب کی عادی ہو جائے اور وہاں آلات موسیقی رواج پا جائیں تو ایسی قوم تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔پھر چاہے وہ عباسی خلفاء ہوں ،مغل شہنشاہ ہوں یا ملت پاکستان۔

میری وزیر اعلی مریم نواز صاحبہ سے درد مندانہ التجا ہے ہماری قوم کی پہلی درسگاہوں(بچیوں ،جو آنے والے دور کی مائیں ہیں)کے حال پر رحم فرمائیں اور لاکھوں روپے جو انعامات کی صورت ضائع کیے جائیں گے ان سے زیادہ نہ سہی ہر ضلع میں ایک نیا دستکاری اور آن لائن ارننگ ٹریننگ اسکول کا آغاز کیا جائے تاکہ بچیاں گھر بیٹھے اپنی مدد آپ کے تحت کاروبار چلا کر اپنی فیملی کی بہتر نگہداشت میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

نہ کہ اپنی آوازوں کے سر بکھیرتی اور جسموں کی نمائش کرتے کرتے گھروں کی طرف پلٹنا بھول جائیں ۔

اے اللہ میرے ملک و دین کی حفاظت فرما،میرے وطن کے حکمرانوں اور عوام کو رشد و ھدایت نصیب فرما۔۔۔۔آمین

حصہ