رحمانیت

الحمد میں تمام تعریفیں شامل ہو جاتی ہیں خواہ صفات اور حمد براہ راست رب سے منسلک ہوں یا پھر کوئی خوبی رب نے اپنے کسی بندے کو عطا کی ہوں ان سب میں اللہ کی رحمت اور بڑائی کار فرما ہے۔۔۔

کتنے ہی عالمین ایسے ہیں جو محض اللہ رب العزت کے علم ہی میں ہیں اور نہ تو کسی آنکھ نے اسے دیکھا نا کسی کان نے ان کے بارے میں کچھ سنا ہے اور کوئی انکے بارے میں جاننے کی کوشش کرے بھی کیونکر جب کہ رب نے جن امور کی آگاہی عطا فرمائی ہے اسی پر غور و فکر کے لۓ ہی یہ زندگی ناکافی ہے۔

اس کے اقتدار اور شان کے معترف ہونے کے لۓ یہ ہمارے لۓ بہت ہونا چاہیے کہ وہ اپنی تمام مخلوقات کو پالنے والا،کھلانے والا،چلانے والا،نگرانی کرنے والا۔مارنے والا اور مرنے کے بعد دوبارہ ژندہ کرنے والا ہے خواہ وہ اللہ کی ہمارے علم میں ہوں یا پھر نہ ہوں۔۔۔  صدق اللہ العظیم،

اسکی رحمانیت و رحیمیت کے مشاہدے سے بارہا ہمارے ظاہر و باطن دونوں کی بصارتیں واقفیت حاصل کرتی رہتی ہیں مگر ان کو پہچاننے،انکا معترف اور سب سے بڑھ کر انکا شکر ادا کرنے کا ہر شخص اہل نہیں ہوتا۔

ہر شخص اللہ رب العالمین کی رحمتوں کے نظاروں کی عکس بندی کرنے کا اہل نہیں ہو پاتا نہ ہی اسکی زبان و عمل اسکی بڑائ کے معترف ہوتے ہیں۔ کیونکہ اللہ خود قرآن میں فرماتے ہیں کہ انسان اپنے رب کا بڑا نا شکرا ہے۔ کہ اکثر وہ اپنے اردگرد حتی کہ اپنے وجود میں بے شمار و بیش بہا نعمتوں اور رحمتوں کو دیکھ کر بھی اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔

نَعٰوذُ بِااللّٰہِ مِن ذَالِکَ۔۔۔

مالک ہے بدلے کے دن کا،، وہ دن جب ہر مظلوم اپنے اوپر ہوۓ ظلم کی داستان اپنے رب کو سناۓ گا۔۔ اور ہر ظالم اپنے ظلم کا پورا پورا بدلہ پالے گا۔ خواہ وہ ظلم اسنے اپنی ذات پر کیا ہو یا کسی دوسرے کی ذات پر کیا ہو خواہ چھپ کر کیا ہو یا اعلانیہ اسے وہ پورا پورا اپنے آنکھوں کے سامنے دیکھ لے گا۔

اور رہا دائیں ہاتھ والوں کا بدلہ تو میری دعا ہے کہ انکے جیسا عظیم الشان استقبال اور انکی جیسی رحمت اللہ مجھے اور آپ کو عطا فرمائیں۔ محض اللہ رب العالمین کی عبادت اور اسی سے حاجت روائی کی درخواست درحقیقت دین برحق کا خاصہ ہے۔

کیسے؟

لفظ عبادت “عبد” سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی “غلام” کے ہیں۔ اب جب ہمیں معلوم ہوگیا کہ عبد غلام کو کہتے ہیں تو ہم اس چیز سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ *_غلام_* کی اپنی *کوئی مرضی نہیں ہوتی ہے۔ اسکا سونا ، جاگنا ،چلنا ، رکنا ، بولنا غرض ہر ہر عمل اسکے مالک کے حکم کے مطابق ہوتا ہے اسکی اپنی مرضی اسے مالک کے عتاب کا شکار کر دیتی ہے۔

اسی طرح بلکل اسی طرح جب ہم دن میں پانچ مرتبہ اللّٰہ سے اسکی عبادت کا دعویٰ کرتے ہیں تو گویا ہم اسکی غلامی کا دعویٰ کرتے ہیں اور اگر نماز مکمل ہوتے ہی ہم اپنے مالک کی نافرمانیوں میں لگ جائیں تو آخر یہ کیسا دعویٰ ہے؟؟؟

ایسے ہی طرز اعمال کے لۓ اللّٰہ رب العزت فرماتے ہیں نا کہ

” اے ایمان والوں تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ” اب جب ایک غلام مکمل طور پر اپنے مالک کی غلامی میں ہے تو یہ بات بھی یقینی ہے کہ اس کی تمام حاجت روائی اسکے مالک ہی سے منسلک ہونی چاہیے۔ ادھر ادھر دیکھنا اور کسی اور سے آس لگانا مالک کی ملکیت میں خیانت کے مترادف ہے۔

الغرض عملاً ہمارا ایمان تبھی کامل ہوگا جب ہم غلامی کے تقاضے کو پورا کرینگے، ان شاء اللہ۔

اللّٰہُمَّ جَعَلنَا مِنھُم۔

قرآن کریم کی ابتدا میں پہلی دعا پہلی دعا جو ہماری نظروں سے گزرتی ہے وہ ہے ہدایت اور تقویٰ کی دعا وہ سیدھے راستے کی رہنمائی کی دعا ہے کیوں دنیا کی کسی اور نعمت کی دعا اس قران کی پہلی سورت میں موجود نہیں یا کیوں صراط مستقیم کے علاوہ کوئی اور دعا ہماری نظروں سے اس قران میں پہلی دعا کے طور پر نہیں گزرتی ہم سوچیں گے تو ہمیں معلوم ہوگا تب ہی اس قران کے بیش بہا موتیوں کو ہم سمیٹ سکیں گے ائے تھوڑا سا غور کریں کہ کیوں پہلی دعا اس قران کو کھولتے ہی ہمیں ہدایت اور سیدھے راستے کی رہنمائی کی ملتی ہے۔

اس کی سب سے اہم وجہ جو میری ناقص عقل سمجھ سکی ہے وہ یہ ہے کہ ہدایت ہی وہ نعمت ہے اور وہ واحد نعمت ہے جو مانگے بغیر نصیب نہیں ہوتی اللہ ہر نعمت بے شمار نعمتیں بغیر طلب کے بغیر درخواست کے ہمیں عطا فرما دیتا ہے لیکن ہدایت وہ نعمت ہے جو اللہ تب تک کسی کو نصیب نہیں فرماتا جب تک وہ خود اس کی چاہت اور دعا نہیں کرتا۔

درحقیقت سیدھے راستے کی طرف رہنمائی اور ہدایت ہی وہ بیش بہا اور عظیم نعمت ہے جو دنیا اور اخرت دونوں کے انعامات کا دروازہ ہے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی اگر ہدایت پر نہیں ہے تو اس کے پاس اللہ کی نعمتیں بھی نہیں ہیں ہاں اس کے پاس اللہ کی اور نعمتیں تو ہوں گی لیکن عظیم الشان نعمت جو اللہ کی رضا ہے وہ ہرگز اس کے پاس نہ ہوگی۔

درحقیقت سیدھے راستے والے پر سب سے بڑا جو اللہ کا انعام ہوتا ہے اس دنیا میں بھی اور اخرت میں بھی وہ اللہ کی رضا اور اس کی محبت ہے وہ اللہ کا رنگ ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا وہ صرف اس کو نصیب ہوتا ہے جو اللہ کے راستے پر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ جب دل صراط مستقیم پر گامزن ہو جاتا ہے تو اس کو اللہ کی رضا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سوا کسی اور نعمت کی حاجت اور چاہت بھی باقی نہیں رہتی اور یہی وہ عظیم الشان نعمت ہے جو اس کو دنیا اور اخرت دونوں میں ذلت اور رسوائی سے بچاتی ہے اور اس عظیم الشان کامیابی یعنی جنت کی کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔ اللہ ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے۔

کوئی راستہ کوئی منزل فائدہ مند تب ہوتی ہے جب اس پر چلتے ہوئے آس پاس کے نظاروں عارضی فائدوں اور رنگینیوں میں ملوث اور مگن نہ ہوا جائے اور نہ ہی ان کی طرف توجہ دی جائے اگر بندہ اس راستے میں آنے والی رنگینیوں کو حرف اخر اور انجام سمجھ لے تو جس منزل کے حصول کے لیے اس راستے پر گامزن ہوا ہوتا ہے اس منزل کو وہ کھو دیتا ہے وہ بھول جاتا ہے کہ وہ اس راستے پر آیا ہی کیوں تھا اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا سیدھے راستے پر چلا تو اس کی ایک منزل ہے وہ ہے صبغت اللہ اور یقینا صبغت اللہ کا انعام جنت ہے اور جنت سے پہلے اس دنیا میں اللہ کی محبت اس کی معرفت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے جو نہ تو ہر ایک کو نصیب ہوتی ہے اور نہ ہی ہر ایک کو اس کی طلب ہوتی ہے اللّٰہُمَّ جَعَلنَا مِنھُم آمین.

” مَغضُوبِ “

یہ لفظ غصے اور غضب کے_ _لۓ آتا ہے اس کے معنی ہیں وہ لوگ جن پر اللہ کا عذاب _اور غضب نازل ہوا اور ان سے مراد ’’یہود‘‘ ہیں۔ یہودی انتہائی ڈھینٹ اور ہٹ دھرم قوم ثابت ہوئ تھی، ان پر جتنے اللہ کے انعامات ہوئے کسی اور قوم کو اس سے پہلے عطا نہ ہوئے لیکن انہوں نے اللہ کی ہر نعمت کی خلاف ورزی کی یا پھر اپنے مطابق راستے نکال کر حجت کے ساتھ انہے مانا۔

دوسری طرف وہ مسلمان ہیں جن کے پاس حق پہنچ جاتا ہے لیکن اس پر عمل کرنے کی زحمت نہیں کرتے وہ اسے دل سے قبول نہیں کرتے اسےعمل میں نہیں اتارتے اللّٰہ کے لۓ کچھ بھی قربان کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے،اللہ کے بجائے نفس کی حکم پر کان دھرتے ہیں بلکل اسی طرح جس طرح یہود نے کیا اور اللہ کے غضب اسکی_ _ناراضگی اور ذلت و رسوائی کا شکار ہوگۓ اور اب تک ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ ان شاء اللہ۔

“الضَّالِّینَ”

یہ لفظ گمراہی کے لۓ آتا ہے۔ ان سے مراد عیسائی ہیں جو گمراہ ہیں اور وہ اس گمراہی سے نکلنے کی کوشش بھی نہیں کرتے، اسی طرح اس سے مراد وہ وہ مسلمان بھی ہیں جو نہ تو حق سے واقف ہیں اور نہ ہی اسے جاننے کی زحمت اور کوشش کرتے ہیں کہ اس کو عمل میں اتار سکیں۔

اللہ ہمیں اپنے غضب سے اور گمراہی سے اپنی پناہ عطا فرمائیں آمین۔