یکم مئی کو ہر سال دنیا بھر میں یوم مزدور منایا جاتا ہے اس دن پاکستان میں بھی عام تعطیل ہوتی ہے ، بہت سے جلسے ، تقریریں کی جاتی ہیں ،مزدوروں کی فلاح و بہبود کے نام پر خوب پیسے فنڈز کی صورت میں بٹورے جاتے ہیں لیکن مزدور اپنی حالت سے ابتر سے ابتر ہوتا جاتا ہے ۔
اس کی کل کائنات ہی دو وقت کی روٹی ہوتی ہے وہ بھی جو کبھی کبھی نصیب ہوتی ہے ۔ غربت اتنی عام ہو چکی ہے کہ ہر جگہ پر آپ کو مزدور اور مستری نظر آئیں گے جو کسی نہ کسی کام کی تلاش میں ہوتے ہیں ، لیکن افسوس نہ تو انھیں پورا معاوضہ دیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی مشقت میں کسی قسم کی کمی کی جاتی ہے ۔
یوم مزدور سب سے پہلے پانچ دسمبر اٹھارہ سو بیاسی کو امریکا میں منایا گیا اور اسکا اہتمام سینٹرل لیبر یونین نے کیا تھا ۔ اس وقت مزدوروں سے سولہ سے اٹھارہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا ، مزدوری بھی بہت کم تھی اور مراعات تو نہ ہونے کے برابر تھیں ۔ اٹھارہ سو چھیاسی میں شکاگو میں امریکا کے تمام بڑے کارخانوں میں مزدوروں نے ہڑتال کی اور ایک بڑا جلسہ منعقد کیا جس پر پولیس نے فائرنگ کی اور پانچ مزدور ہلاک ہو گئے ۔
چار مئی اٹھارہ سو چھیاسی کو شکاگو میں ہی مارکیٹ اسکوائر میں ایک بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا جہاں حالات کا فائدہ اٹھا کر کئی شر پسند عناصر نے دھماکہ کر دیا اس دھماکہ میں پولیس اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے ، ردعمل کے طور پر پولیس نے مزدوروں پر دھاوا بول دیا اور فائرنگ کر دی اس فائرنگ کے نتیجے میں دو خواتین اور ایک بچے سمیت گیارہ مزدور ہلاک ہو گئے ، اسی دوران ایک مزدور نے اپنی قمیض خون میں ڈبو کر جھنڈا بنا ڈالا اور پھر سرخ رنگ مزدور کے احتجاج کے رنگ کے طور پر ابھرا ۔
پاکستان میں پہلی لیبر پالسیی انیس سو بہتر میں تشکیل دی گئی جس کے تحت اولڈ ایج بینیفٹ ، سوشل سیکیورٹی نیٹ ورک اور ورکرز ویلفئیر فنڈز کے بارے میں اقدامات ہوئے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں ، ہر حکومت اور سیاسی پارٹی مزدور کی فلاح و بہبود کا نعرہ تو بلند کرتی ہے لیکن اپنے وعدوں پر عمل پیرا کبھی نہیں ہوتی ۔
وہی مزدور جو سب کے گھر بناتا ہے اس کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ، کوئی اس سے یہ نہیں پوچھتا کہ آج اس کے پاس کچھ کھانے کے لئے ہے بھی یا نہیں ۔ بڑے بڑے محل تعمیر ہو رہے ہوتے ہیں اور مزدور مستری کئی تو تعمیرات کے دوران زخمی بھی ہوتے ہیں لیکن ان کی دوا دارو کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا کسی نے کیا خوب کہا ہے
شہر میں مزدور جیسا دربدر کوئی نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اسکا گھر کوئی نہیں
میری نظر میں ہر وہ شخص مزدور ہے جو نیک اور حلال رزق پاتا ہے ، ہمارے مذہب اسلام میں مزدور کی بہت ستائش بیان کی گئی ہے اور محنت سے کام کرنے والے کو اللہ تعالی کا دوست قرار دیا گیا ہے ۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو لیکن ہم اسلام کے زریں اصولوں اور تعلیمات کو بھول چکے ہیں ۔
زندگی اب اس قدر سفاک ہو جائے گی کیا
بھوک ہی مزدور کی خوراک ہو جائے گی کیا
مزدور کی حالت زار کو بہتر بنانا معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے ، صرف حکومت ، اکیلی سوسل سوسائٹیز یا ادارے اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے جب تک کہ عوام الناس میں مزدوروں کے بارے میں شعور بیدار نہ کیا جائے ۔ آئیے اس یوم مزدور پر یہ عہد کریں کہ مزدوروں کی حالت کو بہتر بنانے میں ہم سب اپنا اپنا کردار ادا کریں گے ۔