یکم میں زیادہ تر ممالک میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے 1886 کو چند مزدور اپنے حق کے لیے اکٹھے ہوئے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر اور آٹھ گھنٹے مزدوری کا وقت طے کرنے پر احتجاج کیا پولیس نے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولی چلا دی یہ واقعہ عدالت میں گیا مقدمہ ہوا 21 جون 1886 کو کریمینل کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کی گئی مخالفین نے عدالت سے مخاطب کرتے ہوئے مزدور رہنماؤں کو سزا دینے پر دباؤ ڈالا اور اخر کار 19 اگست کو پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنا دی گئی ان رہنماؤں کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی 189 میں پیرس میں انقلاب فرانس کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقع پر ریمون لیونگ نے تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے اس تجویز کو 1891 باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا اور یوں دنیا کے چند ممالک میں یکم مئی کو اسی دن کو لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے
عالمی طور پر اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ مزدوروں کے حقوق فرائض اُجرت مسائل اورمسائل کا حل کیا جائے، بدقسمتی سے صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح جُتنے والے یہ محنت کش اپنی اُجرت تو کیا اتنی کمائی بھی نہیں کر سکتے کہ وہ روز مرہ کی ضروریات کو پورا کر سکیں صبح سویرے نکلنے والے یہ محنت کا جب گھر سے روانہ ہوتے ہوں گے تو کتنی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر گھر سے جاتے ہوں گے لیکن دن بھر کی کمائی کے بعد نہ جانے کتنی ہی ضروریات کا گلا گھونٹ کر گھر کی دہلیز پار کرتے ہوں گے اپنی اور اپنی اولاد کی بنیادی ضرورت کو تو چھوڑیے جن والدین نے ان جوانوں کو اپنے جگر کے خون سے بڑا کیا ہوگا اور یہ خواہش دل میں رکھی ہوگی کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو شاید کہ یہ اولاد ان کے کسی کام آسکے گی مگر یہ افراد تو اپنے والدین کی دوائی تک کو پورا نہیں کر سکتے ہوں گے، ساری زندگی جوانی وقت محنت اور تگ و دو کے ساتھ بڑی بڑی عمارتوں کو تعمیر کرنے والے یہ لوگ خود شاید ساری زندگی اپنے ایک سادہ مکان کو پکا کر لینے کی بھی سکت نہ رکھتے ہوں گے۔
مزدوروں کے ساتھ دن بدن ترقی اور ہاتھ سے کام کی جگہ مشینوں کے کام نے لے لی اس طرح ان سادہ لوگوں کے کام مشینوں نے سنبھال لیے اور یہ محنت کش اپنی دیہاڑیوں سے بھی محروم ہو گئے ۔ موجودہ مہنگائی حقوق کے استحصال اور معصیت کی تنگی نے تو بڑوں بڑوں کو چاند تارے دکھا دیے ہیں یہ لوگ جو پہلے ہی مفلص اور مسکین تھے اتنی مہنگائی میں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا سالوں بعد دن منا لینا بہت سے فیچرز لکھ لینا تصویریں بنا لینا کسی کو راشن دے کر خود کو تسلی دے لینا میڈیا پر ان کے حقوق کی تشہیر کر دینا اور پھر سارا سال منہ میں دہی جما کر بیٹھ جانا دراصل مزدوروں کے ساتھ ناانصافی ہے
اس کے نام پر چھٹی ہوگی خود وہ کام پر جائے گا
میرے دیس میں آج مزدور کا دن منایا جائے گا
تعمیراتی شعبے میں یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے حالات دیگر مزدوروں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ انہیں کبھی کام ملتا ہے اور کبھی پورا دن انتظار کے بعد بھی کام نہیں ملتا ، ریاست کی کیا ذمہ داری ہے اور اسلام مزدوروں کو کیا حقوق دیتا ہے آئیے سب سے پہلے اسلام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اسلام میں سب سے پہلا مزدوروں کا حق یہ ہے کہ جب ان کے ساتھ مزدوری کا معاملہ طے کرو تو اُجرت سب سے پہلے طے کر لی جائے
دوسرا حق یہ ہے کہ جب کسی مزدور کے ساتھ معاملہ طے کیا جائے اور اس کی اجرت کی باری آئے تو اجرت دینے میں اتنی دیر بھی نہ کرو کہ اس کا پسینہ خشک ہو جائے
جب کوئی مزدور غلطی کر لے تو اس سے درگزر کیا جائے۔
مزدور پر اس کی حیثیت سے زیادہ یا طاقت سے زیادہ کام نہ کروایا جائے لیکن اگر کبھی ایسی ضرورت پڑ جاتی ہے تو اس کے ساتھ خود بھی اس کی مدد کر کے اس کے کام میں شریک ہوا جائے۔
حضرت ابوذر غفاری کہتے ہیں کہ میں اسلام لانے سے پہلے اپنے خدمت گاروں مزدوروں اور غلاموں کے معاملے میں بہت سخت تھا پھر جس دن مجھے کلمہ نصیب ہوا اور میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں اسلام قبول کرنے کے لیے گیا تو میں نے ان سے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مجھے مزید بھی کوئی نصیحت فرمائیے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ابوذر جیسا تم خود کھاؤ ویسا اپنے غلام کو کھلاؤ جیسا لباس تم پہنو ویسا اپنے غلام کو بھی پہناؤ حضرت ابوذر فرماتے ہیں کہ کلمہ پڑھنے کے بعد جب میں گھر گیا تو میرے دل کی حالت بہت بدل چکی تھی وہ غلام جو مجھے دیکھتے ہی ہانپنے کانپنے لگتے تھے میں نے ان میں سے کسی غلام کو بلایا اور کہا کہ میرے لیے کھانا بناؤ جب اس نے کھانا بنایا تو میں نے کہا کہ سب غلاموں کو بلا کر لاؤ وہ گیا اور سب غلاموںکو بلا لایا، میں نے ان سب کے سامنے کھانا رکھا اور بولا کہ سب مل کر کھاؤ اس کے بعد میں ان سارے غلاموں کو بازار لے کر گیا اور ان کو ویسے ہی کپڑے لے کر دیے جیسے میں نے خود زیب تن کیے ہوئے تھے وہ غلام ڈرتا مجھ سے مخاطب ہوا کہ جناب معاملہ کیا ہے اور یہ رم جھم ایک دن کے لیے ہے یا اب یہ ابر کرم ہمیشہ جاری رہے گا آپ کے دل کی حالت بدلتی دیکھ کر میں پریشان ہوں حضرت ابوذر نے کہا کہ اب یہ معاملہ جاری رہے گا چونکہ میرے دل کی حالت بدل چکی ہے ۔
حضرت عمر ایک مرتبہ اپنے مزدور کے ساتھ ہاتھ بٹا رہے تھے لوگوں نے پوچھا امیر المومنین آپ تو خلیفہ ہیں آپ مزدوری کیوں کر رہے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں مزدور پر اس کی حیثیت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈال سکتا پھر انہوں نے کہا کہ میں کون سا کوئی شہزادہ ہوں میرا باپ بھی اونٹ چرایا کرتا تھا،
حدیث قدسی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین آدمیوں کا دشمن ہوں گا ایک وہ جس نے میرا نام لے کر عہد کیا پھر بے وفائی کی دوسرا وہ جس نے کسی آزاد کو بیچ دیا اور اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ جس نے کسی مزدور سے پورا کام لیا لیکن اس کی اجرت ادا نہ کی ، حدیث مبارکہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کہ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی اجرت دے دو۔
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طبقے پر خصوصی توجہ دیں چائلڈ لیبر پر پابندی عائد کی جائے ان بچوں کی تعلیم خوراک کا سارا نظام ریاست خود سنبھالے نیشنل لیبر ریلیشن بورڈ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ لیبر کوٹ ٹریڈ یونین مزدوروں کے مسائل اور ان کا تصفیہ اور ان کی اجرت اور ان کے لیے قوانین ان سب کا دھیان ریاست کی ذمہ داری ہے اگرچہ قانون تو موجود ہیں اگرچہ پالیسیاں تو بنائی گئی ہیں لیکن لیبر قوانین اور پالیسیوں کی موجودگی کے باوجود ان کے نفاذ اور ان کو تسلیم کرنے میں بہت اختلاف ہے جس سے کارکن استحصال اور امتیازی سلوک کا شکار ہو رہے ہیں اس امتیازی سلوک اور استہزا استحصال کی وجہ سے اس طبقے میں احساس محرومی بڑھتا چلا جا رہا ہے محنت کش اور محنت کی عظمت پر یقین رکھنے والا ایک مسلمان کبھی بھی اپنے حق سے بڑھ کر نہیں لیتا اور نہ ہی وہ خیانت کے بارے میں سوچ سکتا ہے ہاں اگر کوئی گنہگار ہوتا ہے تو اس کے پیچھے وہ محرومی اور استحصال ہے جس کا وہ حق رکھتا تھا اور اس کو نہیں دیا گیا۔
پچھلے دنوں ہمارے گھر کے ساتھ ایک گھر کا کام پچھلے ایک مہینے سے چل رہا تھا دو دن پہلے لینٹر تھا صبح سے شام تک مزدور بڑی چابک دستی اور تندہی کے ساتھ کاموں میں مگن تھے انہی میں سے ایک خوبصورت سرخ و سفید بچہ بھی تھا جس کی عمر بمشکل 13 14 سال ہوگی میں بڑی غور کے ساتھ صبح سے شام تک اس کو کام میں مصروف دیکھ رہی تھی صبح سات بجے سے شام کے سات بج چکے تھے دن میں آدھے گھنٹے کا وقفہ تھا جس میں ان مزدوروں نے کھانا کھایا باقی تو بڑے تھے یہ بچہ بھی انتہائی تندہی کے ساتھ کام کر رہا تھا میں نے اس بچے کو بلایا اور چند روپے اس کے ہاتھ میں رکھے جونہی واپس پلٹی بچے کی آواز کانوں سے ٹکرائے ٹکرائی باجی کیا چاہیے میں نے آواز کو سنی ان سنی کر دیا اور آگے بڑھی آواز دوبارہ آئی باجی یہ کس کام کے پیسے ہیں آپ کو کیا چاہیے میں نے بچے کے سر پر ہاتھ رکھا اور پیار سے کہا کہ بیٹا یہ میری طرف سے تم رکھ لو اس نے انتہائی اعتماد کے ساتھ میرے پیسے مجھے واپس کیے اور کہا کہ میں نے جو کام کیا ہے میں اس کی اجرت لے چکا ہوں میں نے ضد کی کہ میں اپنی خوشی سے دے رہی ہوں یہ رکھ لو تمہارے کام آئیں گے مگر اس بچے نے وہ پیسے نہیں رکھے اور وہ اسی پر بضد رہا کہ وہ جو کام کرتا ہے اس کی اُجرت لیتا ہے اپ مجھ سے کوئی کام کروا لو اور اس کے بدلے اُجرت دے دینا ۔
میں وہ پیسے مٹھی میں دبائے گھر آئی اس بچے کے عزم و استقلال ،توکل ،بھروسے اور محنت کی عظمت پر مجھے اپنا قد اس بچے سے بہت چھوٹا لگ رہا تھا کل یہی بچہ کسی وجہ سے اگر پابند سلاسل ہو جائے تو قصور کس کا ہوگا وہ جو صاف شفاف دل کا مالک تھا جو محنت کی عظمت پر یقین رکھتا تھا جب بھی کو ناپسند کرتا تھا جو غیرت مند تھا یا پھر وہ قوم جو سال کے بعد ان کے حق کی آواز تو اٹھاتی ہے مگر پھر پورے سال کے لیے سو جاتی ہے قصور کس کا ہے ریاست کا اسلام کے اصولوں کے عدم نفاذ کا یا معاشرے کا ،سوال ہم سب کے لیے ہے ان معصوموں کا مجرم کون ہے۔