سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے(منور رانا)
یکم مئی جسے “یوم مزدور” بھی کہا جاتا ہے اس دن کو منانے کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ 1886ء میں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئیے محنت کشوں نے امریکا کے شہر شکاگو میں احتجاج کیا اور اس دوران بہت سے محنت کش گرفتار ہوۓ اور ہزاروں کی تعداد میں انہیں مار دیا گیا انہی مزدوروں کی یاد میں ہر سال یکم مئی کو “یوم مزدور” منایا جاتا ہے۔
پاکستان اور دنیا بھر میں یکم مئی کو عام تعطیل ہوتی ہے۔اس دن پاکستان میں حکومتی سطح پر سیمینار منعقد کرائے جاتے ہیں مگر بد قسمتی سے یہ سیمینار صرف تقاریر اور لیکچر کی حد تک ہمیں نظر آتا ہے ان سیمیناروں میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہوتے ہیں ۔مزدور کی مشکلات صرف انہی کو معلوم ہوتی ہیں کہ وہ کس طرح سے اپنی مزدوری کرتے ہیں جب لوگ گھروں میں اور دفتروں میں اے سی کی ہوا کا مزہ لے رہے ہوتے ہیں مگر اس وقت یہ مزدور سخت گرمی میں بھی آپ کو کام کرتا نظر آۓ گا ۔چاہے گرمی ہو یا سردی مزدور اپنے کام سے کبھی غفلت نہیں کرتا مگر ہمارے ہاں پھر بھی مزدور کو ان کی اجرت وقت پر نہیں ملتی یہ ایک غیر سنجیدہ فعل ہے ۔آپﷺ نے مزدور کی اجرت کے حوالے سے فرمایا” مزدور کو اس کی اجرت اس کے پسینہ ختم ہونے سے پہلے دے دو “۔
تری زمیں پہ کرتا رہا ہوں مزدوری
ہےسوکھنے کو پسینہ معاوضہ ہے کہاں (عاصم واسطی)
یوم مزدور ہمارے لیئے ایک پیغام ہے کہ ہم مزدور کو ان کی اوقات کار کے مطابق اور ان کی استطاعت کے مطابق کام کروائیں ۔مزدور ہم سے چاہتا ہی کیا ہے محض اپنی محنت کا مناسب و بروقت معاوضہ ۔ہمارے ملک میں لیبر کے قانون تو موجود ہیں مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم قانون تو بنا دیتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں کرواتے ۔
عہد حاضر میں دیکھا جائے تو مزدوروں کی صف اول میں ہمیں بچے نظر آتے ہیں جو مختلف جگہوں پر اپنی استطاعت کے مطابق کام کرتے ہمیں نظر آتے ہیں ان کے کام کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مسائل زیادہ اور وسائل کم ہیں ۔
فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں (منور رانا)
یکم مئی کو ہر جگہ سیمینار و مظاہرے ہوتے ہمیں نظر آتے ہیں مگر ذرہ کبھی اس دن تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا جب ایک طرف تو چھٹی منائی جاتی ہے اور دوسری طرف مزدور اپنے کام میں مشغول ہے اس مزدور کو اپنی مزدوری کا پورا احساس ہے کہ اس مزدوری سے ہی اس کے گھر کا چراغ روشن ہے ۔ہمارے ہاں مزدور پر اس کی استطاعت سے زیادہ کام ڈال دیا جاتا ہے ان کو وقت پر کھانا میسر نہیں ہوتا اور جب مزدور دن بھر محنت کرنے کے بعد اپنا صلہ مانگتا ہے مگر اس وقت بھی اس کے ساتھ بد سلوکی دیکھنے کو ملتی ہے۔
ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ یہ بھی ہماری ہی طرح ہیں ہمارے بھائی ہیں ہمیں ان کا خیال رکھنا چاہیے ان کو وقت پر اجرت دینی چاہیے اور ان کو ان کی استطاعت کے مطابق کام کروائیں جہاں مزدور کو مشکل پیش آئے وہاں ہم بھی اس کے ساتھ مدد کریں اس کے ساتھ جس حد تک ممکن ہو تو کام میں ان کی مدد کریں۔ اگر اس سے کوئی کام کے دوران غلطی ہو جائے تو اس پر غصہ کرنے کی بجاۓ اس کو درگزر کریں نہ کہ اس کی تذلیل کریں کیوں کہ انسان تو خطا کا پتلا ہے۔