کسی صاحب نے فیس بک میں ناروے کے کسی ہوٹل کا اپنی آنکھوں دیکھا ایک واقعہ تحریر کیا جو متاثر کن تھا۔ ساتھ ہی وہ لکھتے ہیں کہ اس قسم کے متعدد ہوٹل ہیں جو ناروے میں پائے جاتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ وہ ناروے کے ایک ایسے ہی ہوٹل میں کھانا آنے کا انتظار کر رہے تھے کہ کاؤنٹر پر ایک صاحب آئے اور آرڈر دیا کہ پانچ چائے اور ایک معطل۔ یہ بات پہلے تو ان کی سمجھ میں نہیں آئی لیکن جب ان کے سامنے چار چائے لائی گئیں تو وہ چار چائے لیکر چلے گئے جبکہ وہ دیکھ چکے تھے کہ انہوں نے ادائیگی پانچ ہی کی کی تھی۔ کچھ دیر اور گزری تو وہ کوئی صاحب اور آئے جنہوں نے دس چائے کا آرڈر دیا تین معطل کہا اور دس کی ادائیگی کر کے سات چائے اپنے ہمراہ لے گئے، اسی طرح ایک صاحب اور آئے جنہوں نے پانچ لنچ کیلئے کہا، پانچ ہی کی ادائیگی کری، دو کو معطل کیا اور تین لے کر چلے گئے۔ اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اسی دوران کھانا میز پر سجا دیا گیا تو وہ کھانا کھانے میں مشغول ہو گئے لیکن ان کی توجہ مسلسل کاؤنٹر پر مبذول رہی۔ اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ کاؤنٹر پر کوئی خستہ حال آکر کھڑا ہوا اور کاؤنٹر پر موجود خاتون سے پوچھا کہ کوئی معطل شدہ چائے۔ خاتون مسکرائیں اور بیرے کو اشارہ کیا کہ ایک چائے لے آؤ، جب چائے آئی تو وہ مسکراہٹ کے ساتھ اس شخص کو پیش کر دی گئی اور وہ بنا ادائیگی اسے لے کر چلا گیا۔ پھر کسی نے معطل شدہ کافی مانگی اور کسی نے کھانے کیلئے کچھ، وہ حسبِ فرمائش طلب کرنے والوں کو بنا ادائیگی دیا جاتا رہا۔
ہمارا اسلام بھی ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے کہ لوگوں کی مدد کرو لیکن اس انداز میں کہ اگر دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔ اندازہ لگائیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ جب کسی مفلس و نادار کی مدد کر رہے ہوں اور اسے اپنے دائیں ہاتھ سے کچھ دے رہے ہوں تو اس کی خبر بائیں ہاتھ کو کیسے نہیں ہو گی۔ یہ بات محض یہ احساس دلانے کیلئے کہی جا رہی ہے کہ کسی ضرورت مند کی مدد کا یہ انداز انتہائی رازدارانہ ہونا چاہیے۔ سچی بات یہ ہے کہ اسی انداز میں نہ صرف اس کا بھلا ہے جو ضرورت مند کی مدد کر رہا ہے بلکہ اس شخص کا بھی بھلا ہے جو مجبور، مفلس اور غریب ہے۔ ہر شریف انسان میں ایک غیرت اور عزتِ نفس ہوتی ہے۔ ایسا انسان اول تو کسی کے آگے ہاتھ ہی دراز نہیں کرتا لیکن اگر افلاس اسے اپنی ذات یا بیوی بچوں کی خاطر ایسا کرنے پر مجبور ہی کردے تو اس کا ہاتھ پھیل جانے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے مگر یہ اس کا دل ہی جانتا ہے کہ وہ اندر سے کتنا زخمی ہو کر ایسا کر رہا ہوتا ہے۔ میں نے نہ جانے کتنے ہاتھ دراز کرنے والوں کو خمیدہ گردن، جھکی آنکھوں میں نمی سجائے ضرورت کا اظہار کرتے دیکھا ہے، اسی لئے اسلام یہ چاہتا ہے کہ جب بھی کسی ضرورت مند کی مدد کی جائے تو اس انداز میں کی جائے کہ اس کی خبر اس کے سائے تک کو نہ ہو تاکہ اسے جان پہچان والوں کے سامنے کسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ خاموشی کے ساتھ کسی کی مدد کرنے کا فائدہ اس شخص کو بھی ہوتا ہے جس کا ہاتھ دینے والا ہو۔ جب وہ دنیا کے سامنے کسی کی مدد کرتا ہے تو اس میں ایک احساسِ بر تری پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی احساس اسے آہستہ آہستہ مغرور کر دیتا ہے جبکہ غرور ایسا عیب ہے جو اللہ کو ذرہ برابر بھی پسند نہیں۔ فرمان ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی غرور ہوگا اسے جنت کی ہوا تک نہیں لگے گی۔
اسی تسلسل میں ایک شاگرد اور ایک استاد کے معاملے کو نہ جانے کیوں بیان کرنے کو دل مچل رہا ہے۔ کسی ہوٹل میں ایک شاگرد کی اپنے استاد سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ یہ وہ استاد تھے جو پرائمری جماعت میں اس کے کلاس ٹیچر تھے۔ دس سال کی دوری پر بھی وہ ان کو پہچان گیا، آگے بڑھ کر ملا اور اپنا پورا تعارف کرایا تو وہ اسے پہچان گئے۔ استاد نے پوچھا کہ آج کل آپ کیا کر رہے ہیں، شاگرد نے کہا میں بھی آپ کی طرح ایک استاد بن کر بچوں کو پڑھاتا ہوں۔ سوال کیا کہ تم نے ٹیچر بننا ہی کیوں پسند کیا تو شاگرد نے جواب دیا کہ آپ کی ایک بات سے متاثر ہو کر، پوچھا کون سی بات، شاگرد نے کہا کہ ایک مرتبہ میں نے کسی طالبِ علم کا قلم چوری کر لیا تھا۔ اس نے جب چوری کی اطلاع آپ کو دی تو آپ نے کہا کہ جس نے بھی چوری کی ہے وہ چپ چاپ بتادے اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ میں شرمندگی کی وجہ سے خاموش رہا تو آپ نے پوری کلاس والوں سے کہا کہ وہ دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑے ہو جائیں اور سب اپنی اپنی آنکھیں میچ لیں۔ پھر آپ نے باری باری سب کی تلاشی لی اور میری جیب سے قلم نکال کر جس بچے کا تھا اس کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد آپ نے نہ تو کبھی میرا نام کسی کو بتایا نہ ہی اکیلے میں شرمندہ کیا۔ استادِ محترم نے کہا ہاں مجھے یہ واقعہ یاد آگیا لیکن سچ بتاؤں تو خود میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں اس لئے مجھے بھی معلوم نہ ہو سکا کہ پین کس کی جیب میں تھا۔
آج ہمارا یہ حال ہے کہ آٹے کا ایک تھیلا، صابن کی ایک ٹکیہ، سو روپے کا ایک نوٹ اور ایک اسکول کا بوٹ بھی کسی کو دیتے ہیں تو پچاس لوگوں کے سامنے دسیوں کیمرہ مینوں کے ہمراہ تصاویر کھنچوا کھنچوا کے اخبارات اور سوشل میڈیا پر وائرل کر رہے ہوتے ہیں۔