ایرانی صدر کا دورہ جامعہ کراچی اور تعطیل

آج 22 اپریل 2024  پیرکے روز ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی3 روزہ سرکاری دورے پر پاکستان تشریف لائے، استقبال کے لیے ان کو وزیر اعظم ہاؤس میں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، ان کا پاکستان میں یہ پہلا دورہ ہے وزیر اعظم شہباز شریف نے پوری قوم کی جانب سے ان کا والہانہ استقبال کیا اور ان کے اس دورے کی با نسبت اسلام آباد کی نئی شاہراہ کا نام بھی ایران ایونیو رکھ دیا گیا۔

اس دورے میں پاکستان اور ایران کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان 8 مختلف شعبوں کی مفاہمتی یاداشتوں پر بھی دستخط کیے گئے۔ ایران کے صدر کا 23 تاریخ کو دورہ کراچی شیڈول میں طے تھا جس کی وجہ سے ان کو کراچی تشریف لانا تھا، اس شیڈول میں جامعہ کراچی کا نام بھی شامل تھا جس میں انکو پی ایچ ڈی(PHD) کی ڈگری سے نوازا جانا ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اب میں جو بات قابل زکر ہے اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں مجھے حیرانی اس وقت ہوئی جب کمشنر کراچی کی جانب سے عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔

ٹھیک ہے مہمان کے لیے سیکورٹی کو مظبوط بنانا ریاستی ذمہ داری ہے لیکن سیکیورٹی کا جواز بنا کر ڈوبتی معیشت کو مزید ڈوبنے کیلیے ایک ایسے شہر کو بند کر دینا جس سے پاکستان کا پیہ چلتا ہے بہت حیران کن ثابت ہوئی ہے ۔ ایک دن کی عام تعطیل سے جس میں سرکاری و نجی دفاتر کے ساتھ تعلیمی ادارے بھی بند کر دینا سونے پر سوہاگہ   ہے۔ کمشنر کی جانب سے عام تعطیل کا اعلان سنتے ہی ہمیں خوشی تو بہت ہوئی کہ ہمیں نا تو کام پر جانا پڑے گا اور نا ہی یونیورسٹی جانا پڑے گا بلکہ سارا دن دوستوں کے ساتھ ہوٹل میں بیٹھ کر فضول گفتگو کریں گے یا پھر گھر پر آرام و سکون سے رہیں گے ۔ اس خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہمیں،  شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن کیا ہماری سیکیورٹی انتی کمزور ہے ؟ یہ ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے ہمارے لیے، اس سے کیا پیغام پہچنانا چاھتے ہیں ہم دنیا کو کہ ہم کس سطح پر کھڑے ہیں۔؟

خیر اچھی بات چھٹی ہے جس کو ہم کیسے انجوائے کرتے ہیں کیونکہ ایسے لمحے کبھی ضائع نہیں ہوتے، اس جملے سے یاد آیا کہ ہم کلاس میں موجود تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی تو میم نے بڑے خوش مزاج میں ہمیں کہا کہ جس کو کلاس چھوڑ کر جانا ہے وہ چلا جائےکیونکہ بارش کبھی کبھار ہوتی ہے اور جو لمحہ اس میں خوش مزاجی سے گزارا جائے وہ کبھی فضول نہیں ہوتا اور کبھی ضائع نہیں ہوتا کیونکہ آپ اس لمحے کو محسوس کرتے ہیں انجوائے کرتے ہیں اور یہ زندگی میں محفوظ ہوجاتا ہے۔

آج میں یونیورسٹی کے بعد آفس چلا گیا کام کرتے ہوئے اچانک میری نظر جامعہ کراچی کی ویب سائٹ پر پڑی جہاں ایک نوٹیفکیشن آیا ہوا تھا جب اس کو دیکھا تو خوشی ڈبل ہوگئی اس نوٹیفکیشن کے مطابق یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ایرانی صدر کے دورے جامعہ کراچی کے حوالے سے جامعہ کراچی میں چھٹی کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ خوشی تو سمائی نہیں جا رہی تھی لیکن مجھے اس لمحے خوشی کی بجائے دکھ ہور ہا تھا کہ کاش یونیورسٹی میں چھٹی نا ہوتی اور صدر کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے جب وہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں تشریف لاتے وہ لمحہ کس قدر یاد گار ہوتا لیکن مجبوری کہ ہمیں اس لمحے کو صرف نیوز چینل میں محسوس کرنا پڑے گا۔

آخر میں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ایک طالب علم کو کسی بڑی شخصیت سے ملنے کا بہت شوق ہوتا ہے وہ ان لمحوں کو اپنی زندگی میں محسوس کرنا چاہتا ہے ان سے بات کرنا چاہتا ہے چاہئے وہ کسی دوسری ریاست کا سربراہ ہو یا پھر اپنی ریاست کا سربراہ ہو، سیکیورٹی کے سخت انتظامات پر ہمیں خوشی ہوتی ہے اور ہمیں اپنی سیکیورٹی پر فخر ہے آج ہم سکون و آرام سے رہتے ہیں یا پھر اپنی مرضی سے چلتے پھرتے ہیں تو یہ ہماری سیکیورٹی کی وجہ سے ہے جس پر ہم ناز کرتے ہیں ۔میری انتظامیہ سے گزارش ہے کہ ان دنوں پاکستان میں ویسٹ اینڈیز کی وومن کرکٹ ٹیم بھی کراچی میں دورے پر موجود ہے اور ان کا بھی ایک دورہ چاہئے وہ کچھ لمحے کا کیوں نہ ہو جامعہ کراچی میں کروایا جائے اور طلبہ سے ان کی ملاقات کروائی جائے تو ہمارے لیے یہ لمحے بہت قیمتی ہونگے جن کو ہم کبھی نہیں بھول سکیں گے۔

حصہ
mm
نوید احمد جتوئی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ میں آخری سال کے طالب علم ہیں لکھنے کا شوق، حالات حاضرہ میں نظر رکھتے ہیں، جبکہ سوشل میڈیا میں متحرک ہیں۔ روزنامہ جسارت کی ویب ڈیسک پر خدمات انجام دے رہیں ہیں۔