تاریکی میں ڈوبتی دنیا

معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔

ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔

اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔

پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی میں قید رہنے کے مترادف دیکھائی دیتے ہیں، جیسے لوٹ مار، چھینا جھپٹی،ویسے تو یہ الفاظ کی وجہ سے بہت ہی کوئی چھوٹی سی بات لگ رہی ہے لیکن کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں روزانہ کی بنیاد پر رات دن کی فکر سے آزاد سیکڑوں لوگ لٹ رہے ہیں اور کتنے ہی گھروں میں صف ماتم بچھ رہا ہے۔ جو اس بات کی واشگاف گواہی ہے کہ ہم تاریکی کے کس دور میں زندہ ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب بددعاؤں اور دل سے نکلنے والی آہوں سے خوف کھایا جاتا تھا اور کوشش کی جاتی تھی کے ایسا کوئی عمل سرزد نا ہو کہ جس کی وجہ سے کسی کا دل دکھے اور اس دکھے دل سے کوئی بد دعا نکلے، آج مادہ پرست معاشرہ اس فکر سے آزاد ہوچکا ہے اور صرف یہ جانتا ہے کہ میری زندگی کائنات میں سب سے اہم ہے جو کہ انسان کا سب سے بڑا وہم ہے۔ اپنے لئے رات کو بھی دن کی طرف دیکھنے کی خواہش رکھنے والے دوسروں کی زندگیوں میں اندھیرا کیسے کر سکتے ہیں۔ اس سوال کا بھرپور جواب آج ہم اپنے فلسطینیوں کو دیکھ کر سمجھ سکتے ہیں۔ ہم نے دنیا کے کچھ ممالک پر امریکا کا عملی تسلط دیکھا جن میں افغانستان، عراق، یمن،لیبیاقابل ذکر ہیں جہاں امریکا نے ناصرف اپنی فوجیں بھیجیں بلکہ جنگی جہازوں اور کیمیائی ہتھیاروں تک کا بے دریغ استعمال کیا، یہ سب کچھ ابلاغ نے دیکھایا بلکہ ان میں سے بعض جگہ تو براہ راست دیکھایا۔ اسی طرح دنیا کے بہت سارے مملک ایسے ہیں جہاں بظاہر تو جمہوری نظام حکومت ہے لیکن اصل اقتدار کسی اور کے پاس ہے اور وہاں کی عوام کی قسمتوں کا فیصلہ انکے ووٹ نہیں بلکہ آمریکاکی سرکار کرتی ہے۔ یہ کوئی اتنی پریشانی کی بات نہیں ہے کیونکہ ہماری زندگیاں اسی طرح سے محفوظ ہیں لیکن امریکا کی بالادستی کا یہ عالم ہے کہ فلسطین میں جاری تاریخ کی بد ترین دہشتگردی کرنے والے اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی قرارداد کو اپنے بھرپور اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اسے ویٹو کر کے خارج کردیا۔ فلسطین ایک طرف تو گولا باری، گولیوں اور ہوائی حملوں سے گونج رہا ہے لیکن دراصل فلسطین میں گونجنے والی آوازیں آہوں اور کراہوں کی ہیں جو اپنے بچھڑجانے والوں اور زندہ بچ جانے والوں کے زخموں کے درد کی وجہ سے ماحول میں معلق ہوکر رہ گئی ہیں۔ اسرائیل باقاعدہ نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے جس کا اظہار یہودی فوجی سماجی ابلاغ پر بڑی بغیرتی اور دیدہ دلیری سے کر رہے ہیں۔روز ہماری نظروں سے معصوم لاشیں اور زخموں سے چور بچے سماجی ابلاغ پر گزر رہے ہیں۔ لاتعداد سرحدیں ہمارے درمیان کھڑی ہیں کہ ہم کسی بھی طرح سے انکے کام نہیں آسکتے، ہم بے حسی کے اس مرتبے پر فائز ہوچکے ہیں کہ ایک لمحے میں منظر بدل دیتے ہیں اور کسی مضحکہ خیز چیز کو دیکھ کر ہنسنا شروع کردیتے ہیں۔

فلسطینی بے خوف و خطر، بے دریغ اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ ایک مایوسی پھیلانے والے نے ایک خستہ حال فلسطینی نوجوان سے سوال کیا کہ اللہ آپ کی مدد کیوں نہیں کررہا تو اس نوجوان نے قران کی آیت پڑھ کر سنائی اور کہاکہ اللہ رب العزت ہمیں اس مشکل کے بدلے میں جنت عطاء کرینگے۔ ایمان کا ایسی پختگی اس رنگ برنگی دنیا میں ان فلسطینیوں کو ہی نصیب ہوئی ہے وہ بارود کی چھاؤں میں بھی نمازیں باجماعت کھلے آسمان کے نیچے پڑھ رہے ہیں گویا اللہ اور انکے درمیان کسی چھت کا پردہ بھی نہیں ہے۔ آج خوف بھی ان کے عزم اور حوصلے کے سامنے خوفزدہ دیکھائی دیتا ہے۔ایک بچہ جس کی عمر سال یا ڈیڑھ سال سے زیادہ نہیں ہوگی اس کے چہرے پر دوسو(200)ٹانکے لگے ہوئے ہیں اور اس کا دایاں ہاتھ ٹوٹا ہواہے اور وہ زندگی کی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اسرائیلی فوجیوں نے ایک پانچ سال کی بچی کے سر میں گولی مالی جب وہ اپنی ماں کی گود میں تھی۔ لفظ ظلم معدوم پڑ گیایہ سب دیکھ کر اور معلوم نہیں ہمارے دل اور جذبے کیسے ہیں کہ یہ سب دیکھ کر بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایران نے اسرائیل کے شہروں پر بمباری کی تو یہ سمجھا گیا کہ شائد وقت آن پہنچا ہے جب اُمت کھڑی ہوجائے گی اور اسرائیل کو اسکے کئے کی سزا دے گی لیکن یہ سارا معاملہ اس وقت ٹھنڈا ہوگیا جب ایران نے موقف دیا کہ انہوں نے دمشق میں انکے سفارتخانے کو نشانہ بنانے کا بدلا لیا ہے اور اس معاملے کو یہیں تک رکھا جائے لیکن گزشتہ شب ایران پر اسرائیل نے کچھ میزائل داغے ہیں۔دیکھیں یہ معاملہ اب کیا رخ اختیار کرتا ہے۔دبئی میں تاریخی بارشیں ہوئیں ہیں اور سارا شہر کسی دریا کا منظر پیش کر رہا ہے، کیا یہ باران رحمت ہے یا پھر اللہ کے غضب کی ایک جھلک۔

جدید دنیا کی تاریخ میں اسرائیل جیسی کارگردگی کسی نے نہیں دیکھائی ہے کیونکہ آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل کس بے رحمی، بے حسی اور بے دردی سے انسانیت سوز مظالم معصوم اور نہتے لوگوں پر ڈھا رہا ہے، لیکن مجال ہے کہ کسی نے ڈھال بننے کی کوشش کی ہو ہاں دنیا کے بیشتر ممالک میں اسرائیل کے خلاف باقاعدہ عوامی اور سرکاری سطح پر احتجاج کیا جارہا ہے لیکن جو اسرائیل کے ظلم کا شکار ہیں ان کے مذہب سے تعلق رکھنے والے تقریباً 57 ممالک عید الفطر منانے اور اپنے اپنے ملکوں کی سیاسی اثر و رسوخ کو مضبوط کرنے میں اتنہائی مصروف ہیں۔ ان کا یہ عمل واضح کر رہا ہے کہ انکے لئے انکی ذاتی زندگی اہم ہے اور انکی یہ لاپرواہی بہت جلد انہیں اسرائیل کی لگائی ہوئی آگ میں گھسیٹ کر لے جائے گی اس وقت یقینا بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ کہیں ایسا نا ہو کہ توبہ کا دروازہ بند ہونے کا وقت بھی سر پر پہنچ چکا ہو۔روشنی اتنی بڑھ چکی ہے کہ کچھ دیکھائی نہیں دے رہا شائد تاریکی کی ایک شکل یہ بھی ہو۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔