مہنگائی کابوجھ

معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضے 64ہزار ارب روپے کے لگ بھگ ہیں۔2025ء تک یہ قرضے 93ہزار ارب روپے تک بڑھنے کے قوی امکانات ہیں لہٰذامہنگائی کی شرح میں مزید اضافے کوروک پاناحکومت کے بس میں نہ ہوگا۔حکومت کے پاس پرانے ٹیکس وصول کرنے،نئے ٹیکس لگانے کے سواکوئی چارہ نہیں۔

دوسری جانب ٹیکس دینے والے مزیدٹیکس اداکرنے کی حالت میں نہیں۔دنیابھرکی حکومتیں ٹیکس کے بدلے سرمایہ کاروں،کاروباری اورتنخواہ دارطبقے کیلئے سہولیات کابندوبست کرتیں ہیں۔ٹیکس دینے والوں کوآسانیاں فراہم کرکے انہیں ٹیکس ادائیگی کیلئے قائل کرنابھی مشکل نہیں رہتاہے۔سہولیات کافقدان ہے،قانون کی عملداری دوردورتک دکھائی نہیں دیتی،غیریقینی حالات کے سبب کاروبارکرنامشکل ہی نہیں ناممکن ہوتاجارہاہے۔حکومت کی جانب سے آئے روزٹیکس کے بدلے ایک اورٹیکس کاتحفہ دیاجارہاہے۔

بلندشرح سودکی بدولت لوگ غیرمحفوظ کاروبارمیں سرمایہ لگانے کی بجائے بینک سے منافع لینے کوترجیح دے رہے ہیں۔کاروبار،روزگار،پیداواربڑھائے بغیرٹیکسز میں اضافہ مزیدکشیدگی کاسبب بنے گا۔عوامی نمائندے کی حیثیت سے منتخب وزیراعظم میاں محمدشہبازشریف کے سامنے سب سے بڑامسئلہ مہنگائی ہے۔وزیراعظم اس چیلنج سے باخوبی واقف بھی ہیں اورغریب کومہنگائی کے بوجھ سے بچانے کیلئے پرعزم بھی معلوم ہورہے ہیں جبکہ یہ کام آسان نہیں۔

مہنگائی کے پیچھے بے شماروجوہات ہیں۔مصنوعی مہنگائی اورملاوٹ ایسی وجوہات ہیں جنہیں کنٹرول کرناوقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ملاوٹ اس حدتک پہنچ چکی ہے کہ دودھ،دودھ نہیں رہا،ایک چینی دوسری چینی سے کم میٹھی ہے،شکراورگڑکڑوے ملنے لگے ہیں۔جان بچانے والی ادویات تک ملاوٹ کے زہرسے متاثرہوچکی ہیں۔وزیراعظم غریب عوام کے سچے خیرخواہ ہیں تو سب سے پہلے ملاوٹ اورمصنوعی مہنگائی کے خاتمے کیلئے سخت اقدامات اٹھائیں۔چند روزقبل ایپکس کمیٹی کے خصوصی اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھاکہ ملکی معیشت کو بہت بڑے چیلنجز کاسامناہے۔بہت کڑوے فیصلے کرنا ہوں گے ان فیصلوں کا بوجھ اشرافیہ پر آنا چاہیے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے سب کو مل بیٹھنا ہوگا۔اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک کو جائز مقام دلانا ہے۔غریب مہنگائی میں پس چکے ہیں۔ صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں ہیں۔وفاق اکیلا چیلنجز کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

اجلاس میں آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر نے خصوصی شرکت کی۔آرمی چیف نے معیشت کیلئے محفوظ ماحول کی یقین دہانی کرائی۔چاروں صوبائی وزراء اعلیٰ مریم نواز، سرفراز بگٹی، مراد علی شاہ اور علی امین گنڈا پور اجلاس میں شریک ہوئے جبکہ سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ،سابق نگران کابینہ کے ارکان اور سابق نگران وزراء اعلیٰ بھی شریک ہوئے۔اجلاس میں وفاقی وزراء، چیف سیکریٹریز اور معاونین نے بھی شرکت کی۔وزیراعظم نے اجلاس کے شرکاء کو آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات سے آگاہ کیا اور معیشت کی بحالی کیلئے معاشی ٹیم کا پلان بھی سامنے رکھا۔

وزیر اعظم نے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس پلیٹ فارم کا مقصد بیرون ملک سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنا ہے۔شہباز شریف کا کہنا تھا معیشت کو بہت بڑے چیلنجزدرپیش ہیں۔سب مل کرکوشش کریں توبہت جلد ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگی اور ہم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔اہم ترین اجلاس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے منتخب وزاء اعلیٰ اور عسکری قیادت موجودتھی۔اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور،مریم نواز شریف،مراد علی شاہ اورسرفراز بگٹی نے کہا کہ ہم تعاون کے لیے تیار ہیں جواس بات کا واضح پیغام ہے کہ مستقبل قریب میں ہونے والے کڑوے فیصلوں کے نتائج کی ذمہ داری فقط وفاق کسی ایک سیاسی جماعت یاعسکری قیادت پرنہیں بلکہ سب پریکساں عائدہوگی۔حکومت بیرون ملک سرمایہ کاروں کوپاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کیلئے منصوبے بنانے سے پہلے پاکستانیوں کومحفوظ ماحول فراہم کرکے بیرون ممالک سے اپناسرمایہ پاکستان لانے کی طرف راغب کرے۔وزیراعظم میاں محمدشہبازشریف اوران کی فیملی کاسرمایہ پاکستان میں محفوظ ہوتاتویقیناوہ اپناسرمایہ بیرون ممالک سے اپنے ملک لے آتے اسی طرح دیگرپاکستانی سرمایہ داربھی اپنے سرمائے اورکاروبارکوبیرون ملک محفوظ سمجھتے ہیں۔

امیدکی جاسکتی ہے کہ ریاست پاکستان کے تمام ستون اس بات پرغورکریں گے کہ بیرون ملک سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کے ساتھ پاکستانیوں کیلئے آسانیاں پیداکی جائیں۔ پاکستان میں کسی بھی سرکاری عہدے کے حصول کیلئے پہلی اورلازمی شرط ہونی چاہیے کہ اپنا تمام سرمایہ پاکستان میں رکھنے کے پابندہوں گے۔ حکمرانوں کاسرمایہ ملک سے باہرپھل پھول رہا ہے جبکہ پاکستان کے غریبوں کیلئے مہنگائی،بے روزگاری،بدامنی اورلاقانونیت عروج پرہے،حکمرانی پاکستان پرکرنے والوں، ذاتی سرمایہ پاکستان سے باہر رکھنے والوں پرعوام کااعتمادبحال ہونااب ممکن نہیں رہا۔غیریقینی اوربداعتمادی کے ماحول میں حکومت کیلئے چیلجزکامقابلہ کرناانتہائی مشکل ہوگا۔ وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں،صوبوں کے وزراء اعلیٰ اورفوجی قیادت مل کردرست سمت کاتعین کرے،ایمانداری اورلگن کے ساتھ کوشش کریں توپاکستان کومشکلات سے نکالناناممکن نہیں۔

پاکستان کی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ ریاست کے ستون باربارآپس میں ٹکراتے رہے ہیں۔وزیراعظم شہبازشریف چاہتے ہیں کہ کڑوے فیصلوں کے نتیجے میں جو مہنگائی ہوگی اس کابوجھ غریب پرنہ پڑے جبکہ فطری طورپرہمیشہ وزن نیچے کی طرف پڑتاہے،یہ کیسے ممکن ہے کہ وزن ہوامیں ٹھہرجائے؟اسے کہیں نہ کہیں زمین پرگرناہی ہوتاہے۔مہنگائی کاوزن اشرافیہ سے ہوتاہواخاک نشینوں پرہی آئے گا۔وزیراعظم غریب کومہنگائی کے بوجھ سے بچاناچاہتے ہیں توپھرخاک نشینوں کواُوپراٹھانے کیلئے عملی اقدامات کرناہوں گے بصورت دیگریہ خاک نشین خاک اوڑھ کرسوجائیں گے۔یادرہے کہ خیالی پلاؤ کھلانے،سبزباغ دیکھانے کاوقت گزرچکاہے حالات ماضی سے بہت مختلف ہیں ریاست کے تمام ستون ہوش کے ناخن لیں۔سیاستدان آپسی ٹکراؤسے گریزکریں ایسانہ ہوکہ عوام پورے نظام کے ساتھ ٹکراجائیں