عید سے ایک دن پہلے بچے کی شرٹ لینے شاپ پر گئی، دکاندار بہت سی رنگ برنگی شرٹس نکال نکال کر دکھا رہا تھا۔ ایک بہت ہی خوبصورت سفید شرٹ بار بار وہ آگے کر دیتا اور کہتا “دیکھیں یہ کتنی پیاری ہے، آپ یہ کیوں نہیں لے رہی ہیں”۔
میں نے کہا جی بہت اچھی لگ رہی ہے مگر میرا بچہ بہت شرارتی ہے،، کہنے لگا تو کیا ہوا ، اس کا شرارت سے کیا تعلق میں نے کہا نہیں بھائی بات یہ ہے کہ وہ سفید شرٹ بہت جلدی گندی کر دیتا ہے اور ایسے ایسے داغ لگاتا ہے کہ اچھے سے اچھے سرف سے بھی دھوئے نہیں جاتے، پاس ہی ایک خاتون بھی کھڑی تھیں۔ فوراً ہم سے مخاطب ہوئیں “شکر کریں کہ بچہ ہے اور وہ شرٹ گندی کر کے آتا ہے ، ہم سے پوچھیں جن کے بچے ہی نہیں۔ میں تو کہتی ہوں کہ میرا بچہ ہو اور وہ شرٹیں گندی کر کر کے آئے۔ اور میں دھو دھو کر دوں ” ۔
میں اسکی بات سن کر کافی پریشان ہو گئی۔ اور اسکو کہا کہ اللہ کرے آپ کے بھی بچے ہوں اور آپ بھی سفید شرٹیں رگڑ رگڑ کر دھوئیں اور پھر ایک دن تنگ آکر کہیں کہ اب نہیں لے کر آنی سفید شرٹ” وہ مسکرانے لگی اور اس دعا سے بہت خوش ہو گئی اور آنکھیں اسکی چمکنے لگیں۔
مگر مجھے اس دوران فلسطینی بچوں کی خون آلود شرٹس اور شہادت کے وہ تمغے جو یہودیوں کی رائفلوں سے نکلی گولیوں سے سینوں میں ہمیشہ کے لیے پیوست ہو گئے تھے ،بہت یاد آئے۔ یہ نشان بھلا کون دھو سکتا ہے۔ اب وہاں پر نہ شرثس گندی کرنے والے ہیں اور ناں ہی انکو رگڑ رگڑ کر دھونے والی مائیں۔
میں نے گرے کیساتھ وہ سفید شرٹ بھی اٹھا لی اور بوجھل دل کیساتھ کاؤنٹر پر ادائیگی کے لیے چلی آئی۔ اللہ تعالیٰ سب بے اولادوں کو اولاد کی نعمت سے نوازے۔۔اور جنکے پاس شرٹس گندی کرنے والے ہیں وہ سلامت رہیں۔ شرٹس گندی کرتے رہیں اور آپ دھوتی رہیں۔