ہم پاکستانیوں اور دنیائے اسلام کے صدور ، شیوخ ، شاہوں اور بادشاہوں نے عیدالفطر ایسے وقت میں منائی جب فلسطین اور غزہ میں بچے خون میں نہلائے جارہے ہیں اور ہم بچوں کے ساتھ غبارے اڑ رہے ہیں ۔ ہم ایک دوسرے کو عید مبارک ضرور کہہ رہے ہیں اس لئے کہ یہ ایک مذہبی تہوار ہے لیکن نہ تو آنکھوں میں مسکراہٹ!تھی نہ ہی چہر وں پر مسرت
بہتا ہے لہو جس سے فلسطین کی صورت۔
کیسے کہے گا آپ کو دل، عید مبارک
ہم دین مصطفےٰ کے علمبردار مسلمان کسی بھی صورت اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ، کہ آزاد تو صرف غزہ اور فلسطین کے مسلمان ہیں ، دنیا بھر میں 50، سے زیاد ہ ممالک تو یہودی کے غلام ہیں جہاں تک اپنے پاکستان کی آزادی کی بات ہے تو،
بڑ ی مدت سے زنجیر ِ فرنگی کٹ گئی لیکن
ہمارے ذہن سے ان کی وہ نگرانی نہیں جاتی
عید کے دن اسرائیلی حملے میں حماس کے سربراہ کے تین بیٹے، چا ر پوتے پوتیاں اس وقت شہید ہوگئے ، جب حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کے بیٹے ایک گاڑی میں غزہ کی پٹی میں الشاتی کیمپ کے قریب انھیں نشانہ بنایا گیا۔ اسماعیل ہنیہ کو اس حملے اور اپنے بچوں کی شہادت کی خبر اس وقت ملی جب وہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں زخمی فلسطینی بچوں کی عیادت کر رہے تھے۔ ۔ اس جنگ کے دوران اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے افراد کی شہادت کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل فروری میں اسماعیل ہنیہ کے ایک بیٹے جبکہ اکتوبر میں ان کے ایک بھائی اور بھتیجے بھی شہید ہو چکے ہیں اسماعیل ہنیہ نے بڑے صبر وتحمل خدا کا شکر ادا کیا کہ ان کو اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کی ’شہادت سے عزت ملی۔
اس المناک خبر پر اسماعیل ہنیہ کا پہلا رد عمل تھا ، اس واقعے سے حماس کے مطالبات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ’دشمن اس دھوکے میں نہ رہے کہ میرے بیٹوں کو امن مذاکرات کے دوران نشانہ بنا کر اور تنظیم کے جواب سے قبل وہ حماس کو اپنی پوزیشن بدلنے پر مجبور کر دے گا۔‘’ اس خون سے ہم مستقبل کی امید پیدا کریں گے اپنے مقصد اور اپنی قوم کے لیے آزادی حاصل کریں گے۔
مقبوضہ فلسطین کے مغربی کنارے میں کے ایک قصبے میں پھنسے ہوئے ایک مزرود فسلطینی کا کہنا کہ اس جنگ میں اس کے خاندان کے اب تک ،103 ، افراد شہید ہو چکے ہیں بیوی سے میرا فون پر رابطہ تھا ، آخری بار اس کی باتوں سے لگ رہا تھا جیسے وہ جانتی تھی کہ وہ بچوں کے ساتھ شہید ہو جائے گی !
گیس سلنڈر لینے کے لئے لائن میں کھڑی ایک خاتون کی آواز سوشل میڈیا پر آج بھی گونج رہی ہے ، کہا ں ہیں وہ مسلم ممالک کے صدور ، بادشاہ ، کہاں ہیں انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں ، کہاں ہیں زمین پر دین ِ مصطفی کے دعویدار محافظ ؟ کیا انہوں نے ہم فلسطین اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کو یہودیوں کے ہاتھوں ، اذیت ، بھوک اور تباہ و برباد ہونے کے لئے تنہا چھوڑ دیا ہے میں صبح سے لائن میں کھڑی ہوں میں نے صبح کی نماز بھی لائن میں کھڑے ہو کر پڑھی ہے
ایک ہی خاندان کے 20، افراد کے کنبے کے ہنستے مسکرانے بچو ں میں زیادہ تر شہید ہو چکے ہیں ہسپتال میں دونوں ٹانگوں سے معذور بچہ کہہ ر ہا ہے ، کیا ہوا میری دونوں ٹانگیں کٹ گئیں ، میرے خواب ابھی زندہ ہیں ۔
غزہ ،، 41کلومیٹر طویل اور 10 کلومیٹر چوڑی پٹی اسرائیل، مصر اور بحیرہ روم کے درمیان موجود 23 لاکھ مظلوم لوگوں کی آبادی پر مشتمل روئے زمین پر بہت ہی گنجان آباد اورغربت زدہ علا وہ ہے جسے دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں او ر فلسطینی خودبھی دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دیتے ہیں
غزہ کی تاریخ تقریبا چار ہزار سال پرانی ہے اور اس کی کہانی بیرونی حملوں اور قبضوں سے بھری ہوئی ہے۔ مختلف زمانوں میں مختلف سلطنتوں نے اس پر حکومت بھی کی اور اسے تاراج بھی کیا جن میں قدیم مصر سے لے کر سلطنت عثمانیہ تک دنیا کی طاقتور حکومتیں شامل رہیں۔غزہ کو سکندر اعظم، رومیوں اور پھر مسلمانوں نے عمر ابن العاص کی سربراہی میں فتح کیا تھا اور یوں ترقی اور تباہی کے اس سفر میں غزہ میں آباد ہونے والوں اور ا ن کی مذہبی شناخت بھی وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی۔سنہ 1917 تک غزہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد یہ علاقہ برطانیہ کے زیر اثر آیا۔ سنہ 1919 کی پیرس امن کانفرنس میں فاتح یورپی طاقتوں نے ایک متحدہ عرب سلطنت کے قیام کو روکنے کے لیے پورے خطے کو تقسیم کر دیا۔ اور غزہ ’برٹش مینڈیٹ‘ کا حصہ 1920 سے 1948 تک وجود میں رہا۔ تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے فلسطین کے مقدر کا فیصلہ نئی نویلی اقوام متحدہ کی جھولی میں ڈال دیا۔ جہاں اسرائیل کی ظلم و بر بریت سے دو چار مسلمانوں پر ہونے والے ظلم سے نجات کے لئے دکھاوے کے قر ار دادیں پیش کی جاتی ہیں ، اور مسلم امہ کا دشمن امریکہ اسے ویٹو کر د یتا ہے،