اسلامی مملکت پاکستان کو وجود میں آئے 75 برس سے زائد ہو چکے ہیں نہ تو ہم اسلامی اور نہ ہی جمہوری ملک کا درجہ حاصل کر سکے ہیں جسکی وجہ عدلیہ، دفاع، قانون نافذ کرنے والے ادارے، سیاستدان اور صحافی حضرات معاشرے کو انصاف فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہے ہیں اور خود قوم بھی سوئی رہی ہے کیونکہ ٹیکس دینے کے بعد قوم نے کبھی کسی سے سوال نہیں کیا کہ ہمیں سہولیات کیا مل رہی ہیں جسکی وجہ سے اوپر والے حضرات جنکا ذکر ابتدائیہ میں کیا جا چکا ہے بے خوف ہوگے یہاں سے ملک اور قوم کی بربادی کا سفر شروع ہوا آپ اندازہ لگائیں کہ ماہ رمضان المبارک میں دنیا بھر میں غیرممالک کے لوگ اشیاء کے نرخ کم کر دیتے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ لوٹ کھسوٹ کا سیزن شروع ہوجاتا ہے سب سبزی مارکیٹ والے سبزیوں کے نرخ اپنی مرضی سے طے کرتے ہیں جس پر متعلقہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر خاموش رہتا ہے حالانکہ جسکا اولین فرض یہ ہوتا ہے کہ عوام کو اشیاء کی خرید و فروخت کو اصل قیمت پر ممکن بنائے مگر پاکستان کے کسی شہر میں عملا ایسا نہیں کیا جاتا ہے اسکے بعد فروٹ، چنا چاٹ، سموسے پکوڑے والا بھی اپنے نرخ خود مقرر کرتا ہے، درزی، نائی، موچی کے نخرے بھی اپنے ہوتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ عوام گہری نیند میں مبتلا ہے
اب میڈیا کا کردار آتا ہے تو مشہور اینکر پرسن، شاہ زیب خانزادہ، منصورعلی خان، کامران شاہد، عبدالمالک، حامد میر، کاشف عباسی، جیسمین منظور، جاوید چودھری، ودیگر صاحبان جو شام 7 سے رات 12 تک پروگرام کرتے ہیں یہ حضرات صرف سیاست پر پروگرام کرتے ہیں کسی بھی صحافی نے مہنگائی پر کوئی پروگرام نہیں کیا دن بھر سیاسی حضرات جو بکواس کرتے ہیں وہ انکا موضوع ہوتا ہے ایک دوسرے کو لڑاتے ہیں اور مزے لیتے ہیں
عوامی نمائندے بھی خواب غفلت کا شکار ہیں آج تک کسی کونسلر، یونین کاؤنسل چیئرمین، ٹاؤن چیئرمین اور متعلقہ ایم پی اے اور متعلقہ ایم این اے نے اپنے حلقوں کی مارکیٹوں کا دورہِ کیا اور نا عوام کی تکالیف کو محسوس کیا کیونکہ وہ جانتے ہیں اس عوام کو انصاف نہیں مخالفین کو گالیاں سننا پسند ہے اسی وجہ سے کسی نے عوام کی بنیادوں سہولتوں، گیس کی عدم فراہمی، غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ بالخصوص عبادات کے وقت اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور پانی کی عدم فراہمی پر کوئی ایکشن لیا ہو وجہ عوام سو رہی ہے۔
ماہ رمضان میں پولیس کا کردار بھی گھناؤنا ہو جاتا ہے بے گناہ افراد کو بند کردیا جاتا ہے رشوت نہ دینے جھوٹے مقدمات قائم کیے جاتے ہیں جج حضرات سب کچھ جانتے ہوئے بھی رہائی کا حکم صادر نہیں فرماتے کیونکہ انکے اسٹاف اور وکلاء حضرات کی روزی روٹی لکھی ہوتی ہے جتنی پیشیاں اتنی موٹی رقم کا آسرا ہوتا ہے ورثاء عدالتوں میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں مگر شنوائی نہیں ہوتی آج تک کسی بھی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بے گناہ افراد کے خلاف آواز اٹھاتے نہیں دیکھا مگر فارن اور ملکی فنڈ ریزنگ کا سلسلہ نہیں رکتا۔
تاجر برادری کو بھی شرم و حیا نہیں ہوتی وہ بھی اس مقدس ماہ کا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ پرائز چیکںگ مجسٹریٹ سے تعلق اور سیاسی سرپرستی انہیں عوام پر ظلم جاری رکھنے کا پروانہ جاری کرتے ہیں عوام میں پستے رہتے ہیں۔
عوام نے بھی خود کو عوام نہیں سمجھا دراصل عوام اب سیاسی کارکنوں کی بٹ چکی ہے کچھ پی ٹی آئی، کچھ ن لیگی اور کچھ پیپلزپارٹی والے بن چکے ہیں انہیں اپنی حکومت جتنے چاہے ظلم کرے انہیں برا نہیں لگتا جسکی وجہ سے سوچتا ہوں اس مملکت خداد کو کیا نام دوں !!