کہتے ہیں کہ تاریخ کے اوراق بہت ظالم ہوتے ہیں۔ ان میں اسباق تو پنہاں ہوتے ہیں لیکن ان سے سبق لینے والے کم ہی ملتے ہیں۔ ایک لمحے کو بغداد چلتے ہیں۔ ہلاکو خان کا لشکر کسی آندھی کی طرح بستیاں اجاڑے چلا آرہا تھا اور بغداد کےعلما میں بحث چل رہی تھی کہ کوا حرام ہے یا حلال اور پھر آج ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ ہلاکو نے یہ نہیں دیکھا کہ کس کا خون حرام ہے یا حلال ،اس نے بےدریغ خون بہایا اور خلیفہ کو قالین میں روندھ کر ہلاک کردیا۔
تاریخ پر ایک نظر اور ڈالتے ہیں۔بغداد سے اپنے برصغیر کی طرف چلتے ہیں۔ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے پنجے گاڑھ رہی تھی۔عظیم مغلیہ سلطنت کے در و دیوار لرز رہے تھے۔آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر تخت نشین تھے اور اس نازک صورتحال میں اس کمزور بادشاہ کا ذرا دسترخوان ملاحظہ فرمائیں ۔
یخنی پلاؤ، موتی پلاؤ، نکتی پلاؤ، نورمحلی پلاؤ، کشمش پلاؤ، نرگسی پلاؤ، لال پلاؤ، مزعفر پلاؤ، فالسائی پلاؤ، آبی پلاؤ، سنہری پلاؤ، روپہلی پلاؤ، مرغ پلاؤ، بیضہ پلاؤ، انناس پلاؤ، کوفتہ پلاؤ، بریانی پلاؤ، سالم بکرے کا پلاؤ، بونٹ پلاؤ، کھچڑی، شوالہ (گوشت میں پکی ہوئی کھچڑی) اور قبولی ظاہری۔
سالنوں میں قلیہ، دوپیازہ، ہرن کا قورمہ، مرغ کا قورمہ، مچھلی، بینگن کا بھرتا، آلو کا بھرتہ، چنے کی دال کا بھرتہ، بینگن کا دلمہ، کریلوں کا دلمہ، بادشاہ پسند کریلے، بادشاہ پسند دال، سیخ کباب، شامی کباب، گولیوں کے کباب، تیتر کے کباب، بٹیر کے کباب، نکتی کباب، خطائی کباب اور حسینی کباب شامل ہوتے تھے۔
روٹیوں کی یہ اقسام ہوا کرتی تھیں۔ چپاتیاں، پھلکے، پراٹھے، روغنی روٹی، خمیری روٹی، گاؤدیدہ، گاؤ زبان، کلچہ، غوصی روٹی، بادام کی روٹی، پستے کی روٹی، چاول کی روٹی، گاجر کی روٹی، مصری کی روٹی، نان، نان پنبہ، نان گلزار، نان تنکی اور شیرمال۔
اب میٹھے کی طرف نظر ڈالیے۔متنجن، زردہ مزعفر، کدو کی کھیر، گاجر کی کھیر، کنگنی کی کھیر، یاقوتی، نمش، روے کا حلوہ، گاجر کا حلوہ، کدو کا حلوہ، ملائی کا حلوہ، بادام کا حلوہ، پستے کا حلوہ، رنگترے کا حلوہ۔
مربے ان قسموں کے ہوتے تھے۔ آم کا مربا، سیب کا مربا، بہی کا مربا، ترنج کا مربا، کریلے کا مربا، رنگترے کا مربا، لیموں کا مربا، انناس کا مربا، گڑھل کا مربا، ککروندے کا مربا، بانس کا مربا۔
مٹھائیوں کی اقسام یہ تھیں ۔ جلیبی، امرتی، برفی، پھینی، قلاقند، موتی پاک، بالو شاہی، در بہشت، اندرسے کی گولیاں، حلوہ سوہن، حلوہ حبشی، حلوہ گوندے کا، حلوہ پیڑی کا، لڈو موتی چور کے، مونگے کے، بادام کے، پستے کے، ملاتی کے، لوزیں مونگ کی، دودھ کی، پستے کی بادم کی، جامن کی، رنگترے کی، فالسے کی، پیٹھے کی مٹھائی اور پستہ مغزی۔
یہ مزےدار رنگا رنگ کھانے قابوں، رکابیوں، طشتریوں اور پیالوں پیالیوں میں سجے اور مشک، زعفران اور کیوڑے کی خوشبو سے مہکا کرتے تھے۔ چاندی کے ورق الگ سے جھلملاتے تھے۔ کھانے کے وقت پورا شاہی خاندان موجود ہوتا تھا۔اس کے ادب آداب علیحدہ سے تھے ۔
شاہی دستر خواں سجتےرہے اور انگریز قلعہ تک پہنچ گئے۔ بادشاہ جلاوطن ہوا۔کھانے کے وقت موجود ہونے والا شاہی خاندان تتر بتر ہوگیا اوروقت دکھایا کہ مغل شہزادے ہندوستان کی گلیوں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے۔۔
یہ تو تاریخ کےاوراق تھے۔ آپ ذرا آج کے حالات پر نظر ڈالیں۔ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ملک شدید سیاسی عدم اتحکام کاشکار ہے۔عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ آئی ایم ایف آپ کےسروں پر آکر بیٹھ گیا ہے۔ پڑوسی آپ سے ناخوش ہیں۔ مسائل نے آپ کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے اور ہماری بحث کا موضوع ایک فلاحی ادارے کی جانب سے سحری میں کھلایا جانے والاشتر مرغ ہے۔
یوں سمجھ لیں کہ صورتحال بغداد سے مختلف نہیں ہے۔شتر مرغ کھلانے والے صاحب کہتے ہیں کہ “سیٹھ” کھلا رہا ہے اس لیے ہم توشتر مرغ کھلائیں گے۔مخالفین کہتے ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا شترمرغ کیوں ذبح ہورہا ہے۔ ایک عالم دین کو سنا جو کہتے ہیں شترمرغ تو کھانا ہی حرام ہے۔یعنی اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ شترمرغ ہے۔
کوئی قوم جب زوال پذیر ہو تو اس کے مسائل پھر یہی رہ جاتے ہیں۔ فلاحی ادارے شترمرغ میں کھوجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سیٹھ جو کہےگا وہ توہم کریں گے۔ اب اللہ جانے سیٹھ اور کیا کچھ کہہ دے اور یہ اس پر بھی عمل کردیں۔ حکمران راشن کے تھیلے بانٹ رہے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ پورا نظام بھیک پرچل رہا ہے۔حکمران آئی ایم ایف سے بھیک مانگیں۔عوام حکمرانوں سے بھیک میں راشن لیں۔فلاحی ادارے سیٹھ سے بھیک مانگیں۔۔ایسا لگتا ہے کہ ہم نے فیصہ کرلیا ہے کہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دباکر ہی بیٹھے رہنا ہے تو اس لیے سحری میں سیٹھ کا شتر مرغ ہی ہمارا مقدر ہے۔