خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

سب نے یہ محاورہ تو سنا ہی ہوگا کہ “کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا”۔ کچھ یہی حال پاکستان کے عوام کا ہے۔ 76 برس پہلے ہمارا فیصلہ حاکمیتِ الٰہی کے قیام کا تھا لیکن دو ڈھائی سو سالہ قربانیوں اور جہد و جہد کے بعد ہم نے جو خطہ زمین حاصل کیا وہاں اللہ کو حاکمِ اعلیٰ ماننے کی بجائے ہم نے ملک کے عوام کو اپنا سب کچھ مان لیا اور یہ طے کیا گیا کہ جو بھی عوام کا فیصلہ اور خواہشات ہوں، ان کو مانا اور پورا کیا جائے گا۔ طے تو یہ ہوا تھا کہ ہم اللہ کو اپنا حاکم اور اس کے احکامات کے سوا کسی بات کو بھی نہیں مانیں گے لیکن آزادی حاصل کرتے ہی ہماری باگ مشرق سے مغرب کی جانب موڑ دی گئی اور پورے پاکستانیوں کے اذہان میں میں یہ بات اچھی طرح بٹھا دی گئی کہ اب جو بھی اس ملک میں کرنا ہے وہ مغرب کے تراشیدہ نظام یعنی جمہوریت کے مطابق کرنا ہے۔ یہی (نعوذ باللہ) وہ راستہ ہے جو ہمیں اللہ کے قریب لے جائے گا اور ہم نہ صرف دنیا میں کامیاب و کامران ہونگے بلکہ آخرت کی ہر کامیابی ہماری جھولیوں میں ڈال دی جائے گی۔ پاکستان بن جانے کے فوراً بعد کیونکہ ایمان ابھی اتنا مردہ نہیں ہوا تھا کہ اس فلسفے کو مان لیا جاتا اس لئے جب جمہوریت کا سبق پڑھانے والوں کو یہ اندازہ ہوا کہ یہ بات اُس وقت کے پاکستانیوں کے حلق سے اتنی آسانی سے نہیں اتر سکتی تو انھوں نے سادہ لوح عوام کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اس میں “اسلامی” کی پیوند کاری کر کے خالص مغربی جمہوریت کو “اسلامی جمہوریت” کا نام دیدیا۔ جمہوریت پر “اسلام” کی پیوند کاری کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے جید جید علما بھی اس پر فریفتہ ہو گئے اور یوں جمہوریت اور اسلام ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے۔ اس پر غضب یہ ہوا کہ بڑے سے بڑے عالم سے لیکر ایک جاہل ترین انسان تک، جمہوریت کو تحفظ دینا اس طرح فرض قرار دینے لگا جیسے اسلام کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ہے۔

یہ بھی عجیب بات ہے کہ پاکستان بن جانے کے فوراً بعد خالص مغربی جمہوریت پولیو کے مریض کی طرح گھسٹ گھسٹ کر کسی نہ کسی روپ میں چلتی رہی اور پاکستانی ہر دن یہی سمجھتے رہے کہ جس سمت انھیں لے جایا جا رہا ہے وہ وہی منزل ہے جس کیلئے وہ ڈھائی سو برس سے قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں لیکن اس کے بعد اچانک ہوا یوں کہ وہی طاقت جو “بیٹا جمہورا” کو گھسیٹ گھسیٹ تک چلائے چلی آ رہی تھی، خود براہِ راست تختِ اقتدار پر براجمان ہو گئی۔ جمہوریت کے پجاریوں پر اوس پڑ گئی، سیاسی دفاتر بند ہو گئے، ہر جانب مچی مچھلی بازار جیسی چیخ و پکار خاموشی میں بدل گئی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی گاڑی تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہو گئی اور ایوبی دور کے اختتام تک پاکستان 1947 والے دور سے نکل کر خطے کے تقریباً سارے ممالک سے بہر لحاظ بہت آگے نکل گیا۔ ملک میں ایک مرتبہ پھر جمہوریت کا مروڑ اٹھایا گیا۔ یہ مروڑ اٹھانے والے بھی وہی تھے جنھوں نے لنگڑی لولی جمہوریت کی بساط کو لپیٹ دیا تھا۔ تحریک کامیاب ہوئی۔ عوامی نقطہ نظر کا اختلاف کھل کر سامنے آیا، ملک دو لخت ہوا، ترقیاں تنزلی کی جانب محو سفر ہو گئیں، آہستہ آہستہ پورا ملک ایک مرتبہ پھر مچھلی بازار بنتا چلا گیا اور یوں پھر سے ملک کے حالات اس کو آمریت کی جانب اس طرف لے گئے جہاں سے “اسلامی جمہوریت” آج تک عزت کے ساتھ سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہ ہو سکی۔ اس دوران ایک اور فوجی حکومت ملک کے طول و عرض میں برپا ہوئی جس کے غیر جمہوری مضر اثرات سے ملک شاید ہی نکل سکے۔

یہ سب حالات، ملک کا ہر شعبے میں زوال اور کئی طرح کے خطرات کا امکان اپنی جگہ لیکن یہ بات ماننا پڑے گی کے اگر اس ملک کو 1947 جیسے تباہ کن حالات سے نکال کر ترقی کی جانب کوئی دورِ حکومت لے کر آیا ہے تو وہ آمرانہ ادوار ہی ہیں۔ جب پاکستان بنا تھا تو پورے ملک میں چھوٹے بڑے سارے کارخانے ملا کر صرف 14 تھے، سڑکیں اور پل ناپید تھے، اونٹ، بیل، گدھا گاڑیاں اور سائیکل رکشا چلا کرتے تھے، بجلی، پانی اور گیس کا نام و نشان تک نہ تھا۔ پورا ملک اس جیسے مسائل سے گھرا ہوا تھا۔ اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو ایمانداری سے تجزیہ کر کے بتایا جائے کہ آج جس جگہ ملک کھڑا ہوا ہے اس میں بڑا حصہ کن ادوار کا ہے۔ جمہوریت سوائے چیخ و پکار، لڑائی جھگڑے، ریلیاں، جلسے جلوس، دہشت گردی، بدمعاشی، بد کلامی، معیشت کی بد حالی، آپس کی دشمنی، فرقہ پرستی، ہر قسم کی خرافات، بیہودگی اور ناچ کود کے علاوہ قوم کو اور کیا دے یا سکھا سکی۔ اگر کسی کو جمہوریت کی اصل شکل دیکھنی ہے تو موجودہ اسمبلیوں میں دھینگا مشتی کو دیکھ لے۔ خونخوار جانوروں کی مانند ان کو آپس میں ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچتے ہوئے دیکھ لے۔ دیکھ لے کہ ایک عام آدمی سے لیکر اعلیٰ ترین قیادت کو پا کستان سے کہیں بڑھ کر اپنے اقتدار کی فکر غم زدہ کئے ہوئے ہے۔ مختصر بات یہی ہے کہ اسلام کے مزاج میں “جمہوریت” ہے ہی نہیں۔ جمہوریت عوام کو حاکمِ اعلیٰ قرار دیتی ہے جبکہ اسلام میں حاکمِ اعلیٰ اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ جمہوریت میں عوام کی مرضی ہر مرضی پر غالب ہے جبکہ اسلام اللہ اور اس کے رسول کے احکامات و سنت پر عمل کا پابند ہے۔ حیف کہ اتنے بنیادی فرق کے باوجود پاکستان کی تمام جماعتیں اور علما جمہوریت کو اسلامی رنگ میں رنگنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان سب کو اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا اور اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اسلام کے ساتھ کسی بھی قسم کی پیوندکاری اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں اور بلا شبہ اللہ کا یہ عذاب ہی ہے جو پورے پاکستان پر غالب ہوتا جا رہا ہے۔ علامہ اقبال نے درست فرمایا تھا کہ،،،

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔