مسکان ابھی پانچ برس کی تھی اس کے والد کا انتقال ہو گیا ۔ بچپن میں ہی یتیمی کا سامنا کرنے والی مسکان کی والدہ نے اس کی پرورش کی۔ مسکان کسی رئیس یا جاگیردار خاندان سے تعلق نہیں رکھتی تھی بلکہ وہ خانہ بدوش تھی۔
والد کےرخصت ہونے کے بعد ابھی وہ آٹھ برس کی ہی تھی کہ اس کے چچا اور تایا نے بھی اس کے سر سے شفقت بھرا ہاتھ ہٹا دیا اور دربدر کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیا ۔ مسکان کی والدہ صابرہ بیگم نام جیسی صفات کی حامل تھی۔ مسکان کی پرورش کے لیے ایک گھر میں ملازمت اختیار کی جہاں رہنے کو ایک خستہ حال جگہ بھی مل گٸی۔ اس گھر میں صفاٸی کے ساتھ باورچی خانے کی ذمہ داری بھی صابرہ بیگم کی تھی ۔ ممتا کا یہ عالم تھا کہ خود دن بھر مشقت کرتی رات کو مسکان کے ساتھ وقت گزارتی اور اس کی اچھی تربیت کرتی ۔ کھانا اچھا نہ ہونے پر کٸی بار مالک اور مالکن کی جلی کٹی باتیں بھی برداشت کرتی مگر اپنی بیٹی سے ہمیشہ مسکرا کر پیش آتی ۔ اسے والد کی کمی کبھی پوری نہ ہونے دی اور یہ عہد کیا کہ تمہیں پڑھا لکھا کر ایک قابل شخصیت بناٶں گی تاکہ تمہاری طرح جتنے بھی خانہ بدوش بچے ہیں جو مجبوری کے عالم میں اس وقت گداگری کا سہارا لینے پر مجبور ہیں وہ بھی اپنی زندگی اچھے سے گزار سکیں۔
صابرہ بیگم جہاں کام کرتی تھی وہاں سواٸے چھت اور کھانے کے اس کو کچھ زیاد میسر نہ تھا مگر خوش تھی کہ اس کا گزارہ جیسے کیسے ہو رہا ہے ۔ ایک روز صابرہ بیگم ضروری اشیاء کی خریداری کے لیے اپنی بیٹی کو ساتھ لیے بازار کو نکلی ۔ بس میں موجود بچے اور عورتیں مسکان کے چہرے کی کالی رنگت، پھٹے پرانے کپڑے اور ٹوٹی چپل دیکھ کر کر چہرے پر ایسے تاثرات لاتے کہ جیسے مسکان کو بنانے والا کوٸی اور خدا تھا ۔ مسکان چھوٹی تھی مگر سمجھدار تھی ۔ سب کے رویوں سے خوب واقف تھی ۔ اتنے میں گاڑی میں ایک تن درست شخص آیا اپنی مجبوریوں کا رونا رونے لگا اور مالی مدد کی درخواست کرنے لگا ۔ سب اس کی مدد کر رہے تھے مسکان سب کچھ خاموشی سے دیکھ اور سن رہی تھی ۔ اس نے اپنی والدہ سے کہا مجھے آپ پر فخر ہے آپ نے جھوٹ اور ذلت کی بجاٸے مشقت کو ترجیح دی ۔
بس میں موجود ایک کم عمر (دو سال کا )بچہ(جو مسکان کی برابر والی سیٹ پر بیٹھا تھا ) مسکان کو دیکھ کر خوشی سے مسکرا رہا تھا اور اس کوشش میں تھا کہ مسکان کے ساتھ کھیلے ۔ مسکان بھی اس معصوم شہزادے کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔ بچے کے والدین نے جب یہ منظر دیکھا تو والد خاموش رہا اور والدہ قابو نہ رکھ سکی اور پھوٹ پڑی ” کیسے کیسے لوگ اس دنیا میں موجود ہیں جن کو دیکھ کر دن میں بھی خوف آ جاٸے ” ۔ صابرہ بیگم نے جب یہ سنا تو وہ بھی خود پر قابو نہ پا سکی اور بولی ” محترمہ ! اس کاٸنات کو اور ہم سب کو بنانے والا ایک اللہ ہے ۔ کوٸی کالا ہے یا گورا ، کوٸی مال دار ہے یا غریب ہر شخص کو تخلیق کرنے والا اللہ پاک ہے ۔ چہرے کی رنگت اور ظاہری حلیہ کوٸی معنی نہیں رکھتا فرق تربیت کا ہوتا ہے۔ حسن سفیدی کا محتاج نہیں ہوتا ، حسن دل کی شفافیت کا محتاج ہوتا ہے ۔ کالا رنگ ہو یا خستہ حال حلیہ یہ سب کچھ نہیں اگر آپ اچھے ہیں تو یہ کاٸنات آپ کو اچھی لگے گی اور اگر آپ اچھے نہیں آپ کو کوٸی شخص اچھا نہیں لگ سکتا ۔ ہم بےشک دنیاوی لحاظ سے آپ سے کمتر ہیں مگر دین اسلام میں سب برابر ہیں ۔ سب کے حقوق مساوی ہیں ۔ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی یہ سفیدی یا سیاہی سب دنیاوی آساٸشیں ہیں ان سب نے فنا ہو جانا ہے ۔ انسانیت سے محبت کرنا سیکھیں ۔ ایسی محبت جو رنگ ، نسل ، ذات ، قبیلے یا مذہب کی محتاج نہ ہو ۔ یہ سب سن کر اس بچے کے والدین کو اپنے برتاٶ پر ندامت ہوٸی اور انہوں نے اپنے رویے کی معافی مانگی ۔ گاڑی اسٹیشن پر رکتی ہے اور صبابرہ بیگم اپنی شہزادی کے چہرے پر بوسا دیتے ہوٸے اتر جاتی ہے۔